Breaking News

لیکن جب اسے آزماتا ہے پھر اس پر اس کی روزی تنگ کرتا ہے تو کہتا ہے میرے ..

اگر آپ ہماری نوجوان نسل کے الحاد کی راہ پر چل پڑنے کے اسباب پر غور کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ اسباب اس آیت کے سائے سے شاذ و نادر ہی باہر نکل سکیں گے 
و امّا إذا ماابتلاه فقدر عليه رزقه فيقول ربي اھانن 
(الفجر 16)
 اور جب اللہ اسے آزماتا ہے اور اس پر اس کا رزق تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ رب نے میری توہین کی ہے
تو جہاں  آپ جان لیں گے کہ یہ ملاحدہ خالق کے انکاری نہیں کیونکہ انکار خدا ناقابلِ برداشت حماقت ہے وہیں آپ کو یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اگر ان کو کوئی دین صحیح لگتا ہے تو وہ دین اسلام ہی ہے کیونکہ اسلام کے علاوہ جتنے بھی دین ہیں وہ سب کے سب بت پرستی یا انسانی خداؤں کی عبادت ہے. 
 ملحدين کی مشکل وہ نفسیاتی بحران ہے ایمانی تربیت کی کمزوری کی کمزوری کے سبب جسے وہ برداشت نہ کر سکے. 
 اس پوسٹ میں ایمانی تربیت کے حوالے سے ایک سبق پیش کرنا چاہوں گا مجھے امید ہے کہ اکثر حالات میں یہ سبق زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر فائدہ مند ثابت ہوگا. 
 "ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ کرام کچھ تکلیفیں اور بحران کی شکایات اپنے ساتھ لے کر خدمت رسول میں تشریف لائے یہ تکلیفیں غیر معمولی ناقابلِ برداشت تھیں اگر ہم ہوتے تو ہر لمحہ موت کی تمنا کرتے آپ نے ان کی شکایات سنی اور اپنی مجلس سے ذرہ برابر بھی نہیں ہلے بلکہ انبیاء کی شان سکون و اطمینان کے مطابق ان کے سینوں کو مطمئن کر دیا اور اپنی استقامت اور ثابت قدمی سے صحابہ کرام کے دلوں پر جو دباؤ تھا اسے ختم کردیا
 یہ پورا واقعہ بخاری شریف میں درج ہے کہ جس کے راوی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ہیں فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کا سہارا لے کر ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے پس ہم نے عرض کی کیا آپ ہماری مدد کے لئے اللہ سے دعا نہیں کریں گے تو آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے مومن آدمی کو بلایا جاتا تھا زمین کھودی جاتی تھی اور اس آدمی کو اس میں ڈالا جاتا تھا پھر آری منگوا کر اس کے سر پر مار کر اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا پھر اس پر لوہے کی کنگھیاں پھیر دی جاتی تھیں جس کے سبب اس کا گوشت اور اس کی ہڈی سلامت باقی نہ رہتی اتنی سخت دینی آزمائش کے باوجود وہ اپنے دین و عقیدے سے دست بردار نہیں ہوتا تھا قسم بخدا یہ دین ضرور بضرور مکمل ہوگا حتی کہ سواری کرنے والا صںنعاء(یمنی شہر) سےحضر موت (یمنی شہر) تک کا سفر کرے گا اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا اور بھیڑیا اس کی بکری کے اوپر ہوگا لیکن تم بہت جلد باز واقع ہوئے ہو "
بخاری شریف 
 اس حدیث پر غور کیجئے اور دیکھیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعلان نبوت سے غزوہ خندق تک تقریباً 17 سال تک حملے ہوئے پھر کیا ہوا؟؟ 
یہی کہ اسلام نے علم و عدل سے دنیا کو آباد کر دیا. 
 بنیادی طور پر ہماری خواہشات کی تکمیل (جسے ہم اپنی سعادت و خوشی سمجھتے ہیں) میں کوئی خاص بات نہیں ہوتی اہم بات تو اس چیز میں پوشیدہ ہوتی ہے کہ جس چیز کو اللہ نے ہمارے لئے پسند کیا ہے اسے مکمل کر لیا جائے یا وہ مکمل ہو جائے ایک مناسب شادی ہمارے خواہشات کا خوابوں کا اختتام نہیں ہوتا بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ دینی فتنے کی شروعات ہو
 مناسب نوکری کا مل جانا زندگی کا مقصد نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ اس نوکری کے حصول کی قیمت یہ چکانی پڑے کہ آپ کو دینی عقائد سے سمجھوتہ و مصالحت کرنی پڑے. 
بحیثیت مومن ہمارے لئے  اہم بات یہ ہونی چاہیے کہ میں اللہ سے جہاں بھی خیر ہو اس خیر کی دعا کروں پھر اللہ اس خیر سے مجھے راضی و مطمئن کرے جیسا کہ استخارے کی دعا کے آخری کلمات بھی یہی ہیں. 
 اگر یہ بھلائی رزق کی تنگی، تدبیر کی کمی اور آزمائشوں کی........ کے اندر ہو تب بھی اس دنیا میں ہمیں یہ خیر قبول ہونا چاہیے. 
 معلوم ہوا کہ آپ نوجوانوں کا جوہری مسئلہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ جہاں بھی ممکن ہو آپ کے لیے خیر و بھلائی مقدر کر دے پھر اس تقدیر پر راضی کر دے تو آپ کے گردوپیش کی دنیا بدل جائے گی. 
 لیکن اگر آپ کا یہ مسئلہ ہے کہ جسے آپ اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں اسی کو اپنے حق میں خیر کے طور پر مقدر کر دینے کی دعا آپ اللہ سے مانگتے ہیں تو اللہ پاک آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دے گا اور آپ ہلاک ہو جاؤ گے 
 کیونکہ خیر و بھلائی اللہ مقدر کرتا ہے اپنی حکمت سے مقدر کرتا ہے جسے ظاہری نگاہوں سے سے ہم سمجھ نہیں سکتے. 
 غزوہ خندق کا موقعہ ہے کفار کا گروہ اسلام اور مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے جمع ہے جس دن قرآن کے مطابق (مسلمانوں کی آزمائش ہوئی) اور وہ پوری طرح سے ہلا کر رکھ دیے گئے (الاحزاب ١١)
 عرب قبیلے جس دن مدینہ کے شمالی حصے میں محاصرہ کر کے جمع ہو گئے اور مدینہ کے مشرقی و مغربی علاقے دو عظیم بستیاں تھیں جب کہ مدینہ کے جنوب میں یہودی رہا کرتے تھے اچانک یہودیوں نے غداری کی اور قبائل عرب کے حلیف ہونے کا اعلان کر دیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیویاں بچے اور نبی اکرم صلعم کی عورتیں جنوبی سمت یعنی یہودی سمت میں تھیں. 
 اچانک نبی اکرم اور صحابہ کرام اپنی بساط بھر ساری کوششیں کر کے اور خندق کھود کر اور جو کچھ بشری احتیاطیں نقطہ نظر سے ممکن تھا کاروائیاں کر کے تھک ہار کر کے بیٹھ جاتے ہیں اوراللہ کی مدد کا انتظار کرتے ہیں. 
 پھر تھوڑی دیر بعد نبی اکرم اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھتے ہیں اور لوگوں کو فتح و نصرت کی خوش خبری سناتے ہیں اور چند ہی لمحے گزرتے ہیں کہ ایک بھیانک آندھی چلتی ہے جو طاقت کے ترازو پلٹ دیتی ہے مشرکین کے لشکر برباد کر دیتی ہے ان کی ہانڈیاں الٹ جاتی ہیں اور خوف ذدہ حالت میں سارا گروہ صحرا کی طرف بھاگ پڑتا ہے. 
کوئی آج تک یہ نا جان سکا کہ ان کے دلوں میں کون سا رعب و ہیبت ڈالا گیا تھا
لیکن ہمارا یہ یقین کامل ہے کہ معجزہ رونما ہونے میں چند لمحے کی دیر ہوتی ہے پتہ چلا کہ صحابہ کرام جن کی اسلامی تربیت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے تقدیر کا رونا نہیں رویا جو کچھ ان کے بس میں تھا وہ سب کچھ کیا اور دشمن کا سامنا کیا لہذا ہر نتیجے سے خوش رہے اور ہر نتائج کو خیر سمجھا ہر تقدیر الہی سے راضی رہنا اوراپنی تقدیر سے سے راضی برضا اور شاداں و فرحاں رہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ تنگیاں یہ بحرانی دور عارضی ہیں وقتی موسم ہیں یہ اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ ہیں.... 
ایمان بھروسہ ثابت قدمی تقدیر پر رضامندی کی قوت کا نام ہے خواہ نتیجہ کیسا بھی نکلے
قرآن مجید میں سورت احزاب آیت نمبر 22 میں اسی تعلق سے کیا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے 
 ((ولما راي المؤمنون لأحزاب قالوا هذا ما وعدنا الله ورسوله وصدق الله ورسوله وماذادهم إلا إيمانا و تسليما)) 
یہ در اصل ایمانی تربیت کا نتیجہ و ثمر تھا 
 غزوہ احزاب کے بعد کیا ہوا اسلام پھیلتا گیا اور اس پوسٹ کے لکھے جانے تک کافروں کو مدینہ منورہ پر دوبارہ حملہ کی ہمت نا ہو سکی ہے. 
 تو بھائیو اپنے اپنے مقدمات بدل دو عجوبے خود بخود رونما ہونگے اس فکر و سوچ کو بدل دو کہ آزمائش، رزق کی تنگی اولاد کی تنگی عذاب ہے بلکہ یہی تو درحقیقت خیر ہے

Image result for ‫(الفجر 16)‬‎




No comments:

Post a Comment