Breaking News

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے

آج کل مختلف فورمز پر یہ بات تواتر سے پڑھنے کو مل رہی ہے کہ '' مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے '' اس کے ساتھ یہ بیان دینے والے اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ '' اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔'' لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ '' جب کسی انسان نے کلمہ پڑھ لیا وہ مسلمان ہے، گناہ ثواب جزا سزا سب کچھ اللہ اور اس انسان کا معاملہ ہوگیا۔ '' 
ہے نا دلچسپ بات ہے کہ ایک ہی لمحہ  میں '' اسلام '' کو مکمل ضابطہ حیات کہا جاتا ہے اور دوسری ہی لمحہ اس کی نفی کی جاتی ۔
 آج کے دور کر بلا شبہ دورِ فتن کہنا مناسب ہے۔ آئے روز نت نئے نظریات سامنے آتے ہیں جو عقل کو دنگ کر دیتے ہیں۔۔۔ 
لیکن جب ان کی گہرائی کو جانچا جائے تو ہم آسانی سے  پتا چلا سکتے ہیں کہ یہ کوئی نیا نظریہ نہیں بلکہ ان کے ڈانڈے پرانے نظریات سے جا ملتے ہیں۔
کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے اصول و ضوابط اور اخلاقی اقدار بنیاد کی حثیت رکھتے ہیں ۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین کسی بھی لحاظ سے مکمل قرار نہیں دئیے جا سکتے کہ یہ انسان کی فطرت کا مکمل احاطہ نہیں کرتے، ایسے میں مذہب ہی ہے جو ایک فرد کو زندگی گزارنے کے رہنما اصول و ضوابط فراہم کرتا ہے اس کے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کرتا ہے اور اسے اس کےحقوق کے ساتھ ساتھ فرائض یاد دلاتا ہے کیونکہ مذہب صرف اصول و ضوابط یا قانون کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے کردار و عمل کو مذہب کے مطابق ڈھال لینے کا نام ہے۔ 
 ہمارے سامنے ایسے معاشروں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے مذہب کو '' ذاتی '' معاملہ کہا لیکن کیا ان معاشروں کو مثالی کہا جاسکتا ہے؟؟؟ 
 ان معاشروں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچرے کے ڈھیر کے اوپر خوشنما قالین ڈال دیا جائے ۔ 
'' تھیوکریسی '' کے ردِ عمل میں اپنایا جانے والا نظریے  سیکولر ازم کے بانی ہولی اوک کے مطابق ''سیکولر ازم نام ہے اس ضابطے کا جسکا تعلق دنیا سے متعلق فرائض سے ہے ، جسکی غایت خالصتاََ انسانی ہے اور یہ بنیادی طور پر ان افراد کے لیے ہے جو الہیات کو نامکمل یا ناکافی ، ناقابلِ اعتبار یا فضول اور بے معنی سمجھتے ہیں۔'' 
دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیکولر ازم اس وقت بطور نظریہ سامنے آتا ہے جب انسان مذہب سے غیر متعلق ہونا شروع کردے۔ اسے مذہب میں اپنے مسائل کا حل نہ ملے یا پھر وہ یہ سمجھے کہ مذہبی عقائد ناقابلِ یقین ہیں ۔ 
 اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے امریکی مفکر رابرٹ گرین نے سیکولر ازم کو '' انسانیت کا مذہب قرار دیا ۔'' 
اسی سیکولر ازم کی بنیاد پر قائم جمہوری حکومتیں  جن کے نزدیک صرف اپنے ملک میں بسنے والے انسان کو ''انسانیت'' کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں ، اور باقی دنیا کے انسان اس پیمانے سے خارج ہیں جس کا ثبوت بوسنیا، شام، فلسطین، کشمیر، برما میں ہونے والے وحشیانہ مظالم ہیں ۔ پوری دنیا کو ''انسانیت'' کا درس دینے والوں کے ہی ہاتھوں انسانیت تڑپ ، سسک اور مظالم کا شکار ہے۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں؟؟؟ 
 اسلام اس دنیا کو آخرت کی تیاری کے لیے '' کھیتی '' قرار دیتا ہے جس کا بدلہ فرد کو بعد از موت ملے گا۔ اسلیے مسلمانوں کے ہاں دین اور دنیا میں کوئی تفریق نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو ایسے ہر کام سے منع کیا گیا ہے جس کے لیے اسلامی شریعت اجازت نہیں دیتی اور اسی طرح حکومت کے معاملات بھی کسی کی شخصی خواہش کے مطابق نہیں چلائے جاتے بلکہ اللہ کے احکامات کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔ 
 اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو انسان کی معاشرتی، اخلاقی ، معاشی، سیاسی ہر پہلو سے رہنمائی کرتا ہے۔ 
 اب یہ بہت عجیب بات ہوگی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہو لیکن اس کا اطلاق صرف فرد کی ذات تک محدود رہے اور وہ زندگی کے باقی شعبوں کے لیے '' سیکولر ازم '' کا سہارا لے۔۔۔۔
 مثل مشہور ہے جو زہر سے نہ مرے اسے شہد سے مارو۔۔۔ آج اسلام کے مکمل ضابطہ حیات قرار دینے والے جب اس میں تڑکہ لگاتے ہیں کہ '' مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے '' تو اسکا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ سیکولر ازم کی زہریلی گولی کو انسانیت کے شہد میں لپیٹ کر کھانے کا کہہ رہے ہیں۔ 
 آج اگر کچھ مفاد پرست عناصر مسجد منبر کے تقدس کا خیال کئے بغیر مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کر رہے ہیں تو اس کے ذمہ دار '' دینِ اسلام '' ہر گز نہیں بلکہ یہ مفاد پرست عناصر ہیں جو اپنی ذاتی مفاد اور اسلام دشمنوں کی ایما پر ایسا کر رہے ہیں۔
دین اسلام سے زیادہ انسانوں کی عظمت اور انسانیت کی بھلائی اور محبت  کی بات کرنے والا کون ہے؟؟
سورہ المائدہ کی آیت ۳۲۲ ترجمہ : '' ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل کرنے کے مترادف ہے۔'' 
ضرورت صرف اس کی ہے کہ ہم اسلام کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں۔
 اللہ تعالی ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین
Image may contain: text


No comments:

Post a Comment