Breaking News

کم عمری میں نکاح تحریر : محمّد سلیم


1939 میں پیرو کے ایک ہاسپٹل میں ایک پانچ سالہ بچی لائی گئی جس کے متعلق شبہ تھا کہ اس کے پیٹ میں رسولی ہے ۔ ڈاکٹرز نے چیک اپ کے بعد جو انکشاف کیا اس نے ماں باپ کے پیروں تلے سے زمین نکال دی ۔
She’s pregnant.
یہ بچی حاملہ ہے ۔
اس انکشاف نے سائنس کی دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیا ۔ Lina medina نامی اس بچی نے ایک صحت مند بچے کو جنم دیا اور دنیا کی کم عمر ترین ماں بننے کا ریکارڈ بنا ڈالا ۔
 جس وقت وہ ماں بنیں اس وقت ان کی عمر پانچ سال سات مہینے اور اکیس دن تھی ۔ آپ شائد سوچ رہے ہوں گے کہ لینا ماں بنتے ہوئے انتقال فرما گئی ہوں گی ؟ جی نہیں ۔ لینا آج بھی 83 سال کی عمر میں حیات ہیں ۔ ان کا وہ بیٹا اس دنیا میں 40 سال کی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد وفات پا چکا ۔
ڈاکٹرز کے مطابق Lina medinaa تین سال کی عمر میں ہی بالغ ہو چکیں تھی اور ان کے حیض والے معاملات کا آغاذ ہو چکا تھا ۔ چار سال کی عمر میں ان کے پاس وہ تمام اعضاء موجود تھے جو ایک جوان اور بالغ لڑکی کو شادی کے لئے درکار ہوتے ہیں ۔ یہ اسی صدی کا قصہ ہے کوئی چودہ سو سال پرانی بات نہیں ہے ۔
 حضرت عائشہ رض کی اپنی روایت کردہ احادیث کے مطابق نکاح کے وقت ان کی عمر چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال تھی ۔
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی پھر ہم مدینہ ( ہجرت کرکے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوں نے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں جنہوں نے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوں نے میری آرائش کی اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اورانہوں نے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی 
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار
رواه البخاري (3894) ومسلم (1422)
اس روایت میں صراحت کے ساتھ عمر کا بیان آیا ہے ۔
 قارئین ! ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رض کی نو سال کی عمر میں شادی پر جو اعتراض اٹھایا جاتا ہے وہ انتہائی لغو, غیر اخلاقی اور غیر سائنسی ہے ۔ اس اعتراض کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ۔ اس اعتراض پر مسلمانوں کی کمزوری محض اتنی ہی ہے کہ کوئی آپ سے یہ پوچھے کہ آپ کی والدہ کو پہلی بار حیض کب ہوا تھا اور آپ لاجواب ہو جائیں ۔ کس سے پوچھیں گے ؟ والدہ سے ؟ یا پوچھنے والے کا منہ توڑیں گے ؟ یہی وجہ ہے کہ میں نے اس سوال کو کبھی جواب کے قابل ہی نہ سمجھا ۔ کئی مرتبہ ملحدین کے گروپ میں مجھے اس موضوع پر گھیر گھار کر لانے کی کوشش کی گئی ۔ مگر میں نے دامن چھڑا لیا ۔ کبھی یہ کہہ کر کہ یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ۔ کسی اور دن بات کریں گے ۔ کبھی یہ کہہ کر بلاک ہوا کہ پوچھنے والے کی اپنی ماں کس عمر میں پہلی بار حیض کی کیفیت میں مبتلا ہوئی تھی ؟
 مجھے اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی گلا ہے کہ بغیر کسی اعتراض کی نوعیت اور حساسیت کو سمجھے اس پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں یا جواب دینے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں ۔ یا پھر اپنی مرضی سے حضرت عائشہ رض کی عمر آج نکاح کے لئے رائج اخلاقی عمر تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
 ہر ایرے غیرے سوال پر دلائل کے انبار لگا دینا ضروری نہیں ہوتا ۔ اصل اہمیت اعتراض کی نوعیت کی ہوتی ہے ۔
 بخاری و مسلم کی احادیث کے مطابق حضرت عائشہ رض کا نکاح نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم سے چھ سال کی عمر میں ہوا تھا اور رخصتی نو سال کی عمر میں ۔
ملحدین اس حدیث کا بہت زیادہ سہارا لیتے ہیں عام مسلمانوں کو زچ کرنے کے لئے ۔
ذرا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس پر ملحدین کا نکتۂ اعتراض کیا ہو سکتا ہے ۔
١ ۔ کیا یہ شادی کسی قرانی حکم کے خلاف ہے ؟
٢ ۔ کیا یہ شادی سائنسی اعتبار سے ناممکن ہے ؟
٣ ۔ کیا یہ شادی اخلاقی اعتبار سے غلط ہے ؟
 یہ تین بنیادی اعتراضات میں نے رکھ دیئے ہیں ۔ اس کے علاوہ جزوی اعتراضات بھی ہو سکتے ہیں مگر وہ اس کے اندر ہی آجائیں گے ۔ ان پر بات کرتے ہیں ۔
 قران کے مطابق شادی کے لئے محض بلوغت کی شرط ہے اور عمر کی کوئی قید نہیں ۔ ذاتی سوالات کرنا میں پسند نہیں کرتا ورنہ اگر میں اس پوسٹ کو پڑھنے والے ہر شخص سے مطالبہ کروں کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر بیان کرے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ بلوغت کا انسان میں کوئی مستند معیار متعین ہی نہیں ہے ۔ اس کا تعلق آپ کی عادات آپ کی محافل دوست احباب خوراک موسم غرض ہر چیز سے ہوتا ہے ۔
سائنسی لحاظ سے بھی بلوغت کی کم سے کم عمر وہی ریکارڈ  کی گئی ہے جو میں نے پوسٹ کے شروع میں بیان کی یعنی محض تین سال ۔ زیادہ سے زیادہ یہ تیرہ یا چودہ سال بھی ہو سکتی ہے ۔ بلوغت کی اوسط عمر جو بتائی جاتی ہے وہ گیارہ سے بارہ سال ہے ۔ اوسط عمر کا مطلب کہ زیادہ تر لوگ گیارہ بارہ سال کی عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں ۔ کچھ اس سے پہلے کچھ اس کے بعد ۔ مگر ایک بات طے ہے ۔ بلوغت کی جو عمر قانونی معاشروں میں اٹھارہ سال بیان کی گئی ہے اس کا بلوغت کی طبعی عمر سے کوئی تعلق نہیں ۔ چاہے مرد ہو یا عورت وہ بالغ ہونے میں کبھی بھی اٹھارہ سال نہیں لگاتا ۔
 یعنی اگر اعتراض یہ ہے کہ حضرت عائشہ رض نو سال کی عمر میں بالغ نہیں ہو سکتیں تو یہ اعتراض دنیا کے ہر پیمانے پہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے ۔ حضرت عائشہ رض شادی کے وقت اب تک دنیا میں سب سے جلدی بالغ ہو جانے والی خاتون سے چھ سال بڑی تھیں اور آج بھی دنیا میں رائج بلوغت کی اوسط عمر سے صرف دو سال چھوٹی ۔ یعنی ناممکن ہونا تو دور کی بات یہ کوئی حیرانگی والی بات بھی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اوائل کے کفار اور مشرکین کی طرف سے یہ اعتراض کبھی نہیں اٹھایا گیا ۔ یہ اعتراض صرف انہوں نے اٹھایا جنہوں نے بلوغت کے لئے دنیا میں رائج اٹھارہ سال کی قانونی حد کو طبعی حد سمجھ لیا ۔ قانونی حد تو معاشروں نے اپنی سہولت کے لئے اس لئے متعین کی ہے کہ بلوغت کی اصل عمر سے خود بالغ ہونے والے کے سوا کوئی واقف نہیں ہوتا ۔ فرض کریں ایک پندرہ سالہ شخص کسی کو قتل کر دے تو اس پر بالغ کا اطلاق ہو گا یا نابالغ کا اس کا فیصلہ کون کرے گا جبکہ اپنی بلوغت کی اصل عمر صرف خود قاتل کو پتہ ہو ؟ یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے عمر کی ایک مخصوص حد احتیاطاً اٹھارہ سال متعین کی گئی ہے ۔
 اگر آپ مسلمانوں کے ادوار کا جائزہ لیں تو زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ۔ آج سے محض پچیس پچاس سال قبل پاکستان میں بھی بچیوں کی شادی تیرہ چودہ سال کی عمر میں کر دینے کا رواج تھا ۔ ان معاملات پہ حیران ہونے کے لئے آپ کو دینی سائنسی یا اخلاقی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے ۔ صرف معاشرے کے بدلتے رواج آپ کو حیران کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ آپ بحیثئت معاشرہ بکرے کے گوشت پر پابندی عائد کر دیجیئے ۔ پچاس سال اس پابندی کو رواج بخشیئے ۔ پھر کسی کو بکرے کا گوشت کھاتا دیکھیئے اور حیران رہ جائیے ۔ یقین جانیئے آپ کو اتنی ہی حیرت ہو گی جیسے کسی چائنیز کے کیڑے کھاتے دیکھ کر ہوتی ہے ۔ یہ تو آپ کے اپنے اختیار میں ہے ۔ آج آپ اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کر لیجیئے اور معاشرے میں پچیس سال کی عمر میں شادی کا رجحان پیدا کرنا شروع کر دیجیئے ۔ پھر پچیس سال بعد اپنے بچوں کو بتایئے کہ آپ کی شادی صرف اٹھارہ سال کی عمر میں ہوئی تھی اور ان کو حیران کر ڈالیئے ۔
 یعنی یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس نہیں ہے جو سمجھ نہ آسکے ۔ کسی بھی رواج کو پچاس سال کے لئے ترک کریں اور اس کے بعد دوبارہ اپنائیں تو وہ عجیب لگے گا ۔
 اخلاقیات کی بات بعد میں کریں گے پہلے عقل کی عمر کی بھی بات کر لیتے ہیں تاکہ یہ اعتراض بھی رفع ہو جائے کہ بچی کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح جائز ہے یا نہیں ۔ اسے تو عقل ہی نہیں ہوتی ۔
 عاقل اور بالغ میں صرف ایک چیز کا فرق ہوتا ہے ۔ بالغ شخص کی بلوغت کے بارے میں یا تو وہ شخص خود جانتا ہے یا اس کا رب جانتا ہے مگر عاقل شخص کو کب عقل آئی یہ اس شخص کو خود کو بھی نہیں پتہ ہوتا ۔ یہ صرف رب ہی جانتا ہے ۔ انسان کے پاس ایسا کوئی پیمانہ موجود نہیں جس سے عقل کو ناپا جا سکے ۔ بلوغت کا تعین کرنا آسان ہے مگر عقل کا تعین ناممکن ۔ صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ کسی کو بہت جلدی عقل آجاتی ہے کسی کی پوری زندگی بے عقلی میں گزر جاتی ہے ۔ محمد بن قاسم سترہ سال کی عمر میں بحیثیت سپہ سالار آتا ہے اور سندھ فتح کر لیتا ہے ۔ ہم سترہ سال کی عمر میں پانچ سو کا نوٹ لے کر سودا لینے نکلیں تو نوٹ گما کر منہ لٹکائے خالی ہاتھ گھر لوٹیں ۔
 میں جب سترہ سال کا تھا تو اس بات پر یقین کرنے کر تیار ہی نہیں تھا کہ محمد بن قاسم کی عمر سترہ سال ہو گی ۔ سترہ سال کی عمر میں بحیثئیت سپہ سالار سندھ آنا تو آغاذ کس عمر میں کیا ہو گا ؟ تلوار بازی کب سیکھی ہو گی ؟
 میرا خیال تھا کہ کم از کم پچیس سے تیس سال کی عمر میں بندہ اس قابل ہو سکتا ہے کہ کسی فوج کی کمان سنبھال سکے ۔
 یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ کسی کی عقلی برتری برداشت نہیں کرتا ۔ اور اگر کرنی پڑ جائے تو بہانے تراشتا ہے ۔ نیوٹن کی محض قسمت اچھی تھی کہ جس وقت سیب گرا وہ درخت کے نیچے بیٹھا تھا ۔ اگر اس وقت اس کی جگہ میں بیٹھا ہوتا تو میں بھی وہی سوچتا جو اس نے سوچا ۔ پھر لوگ کششِ ثقل کی دریافت مجھ سے منسوب کرتے ۔ عرفہ کریم اگر نو سال کی عمر میں سافٹ ویئر انجینئر بن گئی تو اس میں بڑی بات کیا ہے ۔ اسے کوئی پراسرار دماغی بیماری تھی جو اگر مجھے ہوتی تو میں پانچ سال کی عمر میں بن جاتا ۔
 معاملہ صرف یوں ہے کہ جو کام میری عقل پہ پورا نہیں اترے گا اس سے یا تو میں انکار کر دوں گا یا اس کو محض ایک اتفاق قرار دے دوں گا ۔
 کسی کا کم عمری میں عاقل و بالغ ہو جانا ناممکن نہیں ہے ۔ آپ کے لئے اس بات کو ہضم کرنا مشکل ہے تو یہ آپ کا مسئلہ ہے ۔
اب آجائے اخلاقی اعتراض کی طرف ۔
 ملحدوں کے مطابق اخلاقی اعتبار سے نو سالہ بچی سے شادی ایک غیر اخلاقی حرکت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ اخلاقیات کس نے مرتب کیں ؟
 ملحدوں کا ہر معاملے کو سوچنے کا ڈھنگ نرالا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک ملحد سے گفتگو کے دوران میں نے ملحد سے پوچھا کہ جانورں کے ساتھ جنسی تعلق بنانے سے انہیں کون سی اخلاقیات روکتی ہیں ؟ تو جواب ملا چائلڈ ابیوز اور جانوروں کا معاملہ ایک جیسا ہے ۔ جس طرح بچہ اجازت دینے سے قاصر ہوتا ہے اسی طرح جانور بھی اجازت دینے سے قاصر ہوتا ہے ۔ جس پر میں نے اعتراض کیا کہ پھر تو آپ کسی جانور کا گوشت بھی نہیں کھا سکتے ۔ ظاہر ہے جانور کو ذبح بھی اس کی اجازت کے بغیر ہی کیا جاتا ہے ۔ یعنی اس سے جنسی تعلق کے لئے اس کی اجازت مانع ہے اور کاٹ کھانے کے لئے صرف آپ کی بھوک کافی ہے ؟ سبحان ﷲ ۔
 کوئی مجھے اخلاقیات کے ایسے اصول مرتب کر کے تو دکھائے جو اسلام نے مرتب کیئے ۔ میں تو ایسے ایسے نکتے اٹھاؤں گا جن کا جواب دیتے دیتے ان کی نسلیں بوڑھی ہو جائیں گی ۔
 آپ ایک جانور کے ساتھ زنا کو حرام قرار دیں اور اس کو کھانا حلال ٹہرائیں تو اس کی کوئی دوسری توجیہ پیش کر ہی نہیں سکتے سوائے اس کے کہ یہ کسی ایسی ہستی کا حکم ہے جس کو آپ اپنا رب مانتے ہو ۔
 نو سال کی بچی میں اتنی عقل نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حق میں کوئی مناسب فیصلہ کر سکے ۔ اور چونکہ وہ خود فیصلہ نہیں کر رہی بلکہ اپنے لڑوں کی مرضی پہ چل رہی ہے لہٰذا یہ شادی غیر اخلاقی ہے ۔
 اگر میں اس فلسفے سے متفق ہو بھی جاؤں تو اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ لڑکی کو عقل کس عمر میں آتی ہے ؟ سائنسی اعتبار سے عقل کا معیار ثابت کر دیجئے اور اسی عمر کو شادی کی عمر قرار دے دیجیئے ؟ بتایئے کیا پیمانہ ہے ؟
 اب میرے استدلال کا بھی جواب دے دے کوئی کہ ایک بچی نو سال کی عمر میں عقل نہیں رکھتی لہٰذا اس کی شادی غیر اخلاقی ہے ۔ اب فرض کریں کوئی بچی اٹھارہ سال کی عمر میں بھی عقل نہ رکھتی ہو تو اس کی شادی کرنا اخلاقی اعتبار سے درست ہو گا یا غلط ؟
اگر چھتیس سال کی عمر میں بھی عقل نہ آئی تب ؟
فرض کریں دماغی مریض ہے ۔ عقل آنی ہی نہیں ساری زندگی تب ؟
ہے کوئی جواب ؟
 اور پھر اس بات کا تعین کسی اور موقعے کے لئے چھوڑتے ہیں کہ لڑکی وہ کون سا کمال کر کے دکھائے گی جس سے پتہ چلے کہ وہ اپنے متعلق خود بہتر فیصلہ کر سکتی ہے ۔
 اب آخری اعتراض کا جواب جو عموماً منکرینِ حدیث کافروں کی طرف سے آتا ہے کہ اگر عائشہ رض کی شادی نو سال کی عمر میں درست ہے تو آپ اپنی بچی کی شادی نو سال کی عمر میں کیوں نہیں کرتے ؟ جو بات آپ اپنی نو سالہ بچی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے وہی بات آپ عائشہ رض کے متعلق تسلیم کرتے ہو ؟
 اس کا جواب سمجھدار لوگوں کے لئے تو اوپر ہی بیان ہو گیا کہ قران میں نکاح کی کوئی عمر بیان نہیں ہوئی بلوغت کی شرط بیان ہوئی ہے ۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جس عمر میں حضرت عائشہ رض بالغ تھیں تمام عورتیں اسی عمر میں بالغ ہو جائیں ؟
 پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شادی کو جائز قرار دیا جا رہا ہے ناکہ فرض ۔ حضرت ابو بکر رض نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں کر دی یہ ان کی مرضی تھی ۔ میں بیس سال کی عمر میں بھی نہ کروں یہ میری مرضی ہے ۔ جب ایک کام فرض نہیں تو ہم معاشرے کے رجحان سے بھی ہم آہنگ رہ سکتے ہیں ۔ کوئی حرج نہیں اس میں ۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ میں Lina medina  کی پانچ سال کی عمر میں حاملہ ہونے والی حقیقت کو یہ کہہ کر جھٹلا دوں کہ یہ عمومی معاملہ نہیں ہے ورنہ اس کا کوئی اور بھی ثبوت پیش کیا جائے ۔
Image may contain: 1 person, sitting


No comments:

Post a Comment