Breaking News

تخیل! پردہ اٹھتا ہے!

مدینہ!
ربیع الاول
دوپہر سوموار
پہلا منظر:
 افقِ مدینہ پہ زردوں سے پیلاہٹ در آئ ہے ! جیسے اپنے ہی گرداب کے دردوں سے ہوا رندھ سی اُٹھی ہو، فضا جیسے کسی دلہن کی ماند گدلے سے کجلے سے چندھیا اٹھی ہے، اس بستی کے عارض و رخسار پہ گرد کا گھوگھنٹ اتر آیا!
 وہ بستی کے جیسے کسی دیوآدم کا ہاتھ طول کو پھیلا ہوا صحرا کے بیچوں بیچ مبہوت پڑا ہو، اسکے ڈبیہ ڈبیہ سے گھر جیسے انگلیوں کے کھلنڈرے خشک جوڑ جا بجا بجا رکھے ہوئے۔۔ شہر کو باہر سے آتی ہوئی سڑکیلی پگڈنڈیاں جیسے دیو آدم کے ہاتھ کی آڑی ترچھی لکیریں جانے کہاں سے آتی ہوئی شہر کے داخلی دروازے میں مدغم ہوئی جاتی ہیں، چٹان سے یک لخت مڑتی ہوئی سڑک اک زاویے سے لہراتی ہوئ جیسے کسی افسردہ نار کی زلفِ عنبریں! جسے اک عرصہ سے سنوارا نا گیا ہو، غم کھاتی ہوئی خم کھاتی ہوئی تھرا کے داخلی دروازے میں آ رہتی ہے! جیسے قسمت کی لکیر راستہ بناتی ہوئی قلب میں آ کے منقطع ہو جائے! اسکی حجت یہیں اتمام ہوتی ہے!
 تپش ایسی کہ سڑک کی اوڑ سے دائیں ہاتھ کا چھجا آنکھوں پہ بنائے چندھیا کے دیکھتے ہوئے عرابی ! تو لگتا ہے جیسے سامنے بھاپ کی حدت سے لہریں لچھ لچھ کے اوپر کو اٹھتی ہوئیں، سورج کی شہہ پہ ریت کے ہردے سے اٹھتا ہوا سراب سامنے کے منظر کو پانی پانی کیے دیتا ہے!
 داخلی دروازے سے دس فرلانگ پہ کھڑا کجھور کا جھنڈ دیکھنے پر یوں لگتا ہے کہ جیسے اک خاندان کندھے سے کندھا ملائے تصویر بنوانے کو ایک دوسرے سے لپٹ رہا ہے، بڑا درخت اسکی بغل کو چھوٹا پھر اک جنجال اک دوسرے سے نکلتا ہوا۔۔
 سورج کی حدت کے دریں اُس کجھور کے پیلے پتے سر نگوں ہوتے ہوئے ، جھنڈ کے خوشے منہ لٹکائے لچھ رہے ہیں جیسے بنی عبدالمناف کی بکریوں کے دودھیا تھن لٹک رہے ہوں، جب بھی کوئی پرند پھڑپھڑا کے خوشے سے اٹھتا عجوا کے گنٹھے، کہ ہوا غم سے بےحس تو کیا غم سر کے کٹنے کا ، دھڑ دھڑا کے چارزانوں زمیں پہ آرہتے ہیں !
 مٹیالی سفیدی میں لیپ دیے گئے گھر جنکی چھتیں اذخر و کجھور کی ٹہنیوں سے چھتیائی گئی تھیں، گھروں کی چھتوں کے کناروں کناروں کجھور کے پتے برہنہ ہوتے ہوئے جیسے جلدی میں الماری بند کرتے ہوئے اندرون کے کپڑے کا کونا الماری سے باھر لٹکتا ہوا پھنستا ہوا رہ جائے، باھر کو اندر کا گواہ کر جائے! جابجا بکھرے ہوئے گھر جیسے لُڈو کی بساط پہ رکھی گوٹیاں ویسی ہی کوٹھیاں،
 سڑک دروازے سے اندر داخل ہوتی ہے، کونوں سے ابھرتی ہوئی وسط سے گہری ہوتی ہوئی، جگہ جگہ سرخ اونٹوں کے پیروں کے دائرے پلستر ہوتے ہوئے ! گھوڑے کی ٹاپوں کی اکھڑن، اونٹ گھوڑوں کے گوبر ریت پہ خشک ہوکر جم چکے ہیں، سڑکے کے آزو بازو دیوان خانے جہاں گلا بان’ غلا بان’ مسافر کجھور کی بنی صفوں پہ سفید بھوری پگڑیوں میں لپٹے موسم کے ٹل جانے کا انتظار کر رہے ہیں، یہ سڑک سامنے اک گلی میں جاکر دم توڑ دیتی ہے۔۔
 گلی کے استقبالیے پہ عبدالرحمن بن عوف کا گھر کجھور پتوں کی ٹہنیاں دیوار سے ہوتی ہوئی گلی پہ برہنہ ہوتی ہوئیں، دائیں گھر بائیں گھر، مٹی کی ساتھ ساتھ چلتی ہوئی دیوار! گھروں کی دہلیز پہ سیاہ دبیز پردے گر رہے ہیں، جن میں دائرے لگے سوراخ جیسے ہر آنے جانے والے پہ نگاہ رکھے ہوئے ہوں،
 گلی کی نکڑ سے تین جبوں میں ملبوس آدمی داخل ہوئے ہیں، بھوری چادریں ، سیاہ پگڑیاں اک طرح دار آسن میں خود پہ گرائے ہوئے اونٹ کے سرخ چمڑے کی جوتیاں پہنے اکھڑ اکھڑ کے ڈگ بھرتے ہوئے جیسے کوئلے کی چادر پہ چل رہے ہوں اور جلد سے جلدآگے نکل جانے پہ تُلے ہوں۔۔
رسول اللہ ﷺ کی طبعیت ناگفتہ بہ ہے!!!
(آواز دیتے ہوئے صاحب کا گلا رندھ سا اٹھا)
ان پہ خدا تعالیٰ رحمت مرسل ہو، ہم ان سے یہی امید بجا لاتے ہیں !!!!
( الجواب کا گلا مزید رندھ سا اٹھا)
 آوازیں آہستہ ہونے لگیں تینوں گلی کی نکڑ تک جا چکے اب گلی میں خاموشی اتر آئی تھی! وہ گلی سیدھی مسجد کے فراغ دروازے کے منہ پہ جا کر ٹھہر گئی، چاروں رخ کی گلیاں یکے دم سے اس دراوزے پہ آکر دم توڑ دیتی ہیں۔۔
 سامنے جوتیوں کے انبار پڑے ہیں، کجھور کے تنوں کے ستون جن پہ اذخر کی چھت ڈال دی گئی تھی، عوام الناس سے کچھا کھچ سفید’ سیاہ پگڑیوں والے سر اک آسن میں مرتب نظر آرہے ہیں، مسجد کی مٹیالی دیواریں جو کہ اک دراز مرد کے شانوں تک آتی تھیں،
 دالان ہُو کا عالم! صحن میں دبیز خاموشی ، وہ جو جوتیاں پہننے کے لمحہ بھی سر نگوں نہ ہو پائے ہوں، سر جھولیوں کو آتے ہوئے خاموش ہیں۔۔۔
پردہ گرتا ہے
دوسرا منظر!
نماز فجر!
 مسجد سے متصل کھڑکی جس پہ سرخ رنگ کا پردہ تنا ہے، جابجا ٹاٹ کے پیوند سے رفع کیے گئے پھٹے کھونچے! کسی کی آرام گاہ!!!!
 اک دراز کاٹھ کا آدمی جسکے چکلے شانے، دستار کوئی پانچ گز کپڑے کا احاطہ کیے ہوئے، نوکیلی آنکھ جس میں سرمے کی دھار ٹپک رہی تھی، اپنے دونوں ہاتھ ناف سے نیچے آپس میں جکڑے پردے کے ساتھ مودب کھڑا ہے! کسی کا انتظار ہو رہا ہے!
 اہل مسجد تھرا کے آنکھیں اٹھا پردے کو تکتے ہیں صفوں پہ نگہ مرکوز کر دیتے ہیں، آیا کہ سورج طلوع ہوا چاہتا ہے!
 دراز قد کاٹھ کا آدمی پردے سے سرک کے آہستگی سے ہٹا، نا چاہتے ہوئے مصلے پہ کھڑا ہو رہا! ساٹھویں دہائی گزری جا رہی ہے! اہل مسجد گواہ، اتنی سرعت سے پہلی بار ٹانگیں تھر تھرا رہی ہیں، تکبیر بلند ہوا چاہتی ہے! مسجد کا ہالا گونجا، چکلے شانے والا ثنا پہ پہنچا! پیوند لگے پردے کا کونا اوپر کو اٹھا، اک ہیولے کا سراپا برہنہ ہو رہا، کن اکھیوں سے مقتدیوں نے دیکھا، چکلے شانے والے نے ثناء روکنا چاہی، الٹا قدم مصلے سے پیچھے کو آرہا، مقتدی کی صفوں میں دو آدمیوں نے بیچ بھنچ کر جگہ خالی کر دی، دوسرا قدم اٹھا چاہتا تھا کہ ہیولے نے دودھیا ہاتھ لہرایا! قدم منجمد ہو گئے! پردہ گرا!!
پردہ گرتا ہے۔۔
تیسرا منظر!!!
 بستر پہ دراز میانے قد کا ہیولا، آج کہ پہلی دفعہ سر دستار سے برہنہ، بال لچھ لچھ کے کنپٹی کو آتے ہوئے، داڑھی سینے پہ ایسے رکھی جیسے پادشاہ کے سینے پہ یاقوت کا سیاہ تاج دھرا ہو، ہونٹ سرخ یاقوت کی ہلاوٹ سے کوئی خوں سہلا رہے ہوں جیسے، سرخ عرق انڈیل دیا مصور نے، گلاب پنکھڑی کے جیسے ہوئے جاتے ہیں، سفیدی ایسی طاری ہے کہ جس کے روبرو دودھ کا رنگ کالا! پاؤں تلک دھاری دار چادر میں لپٹے، آنکھ ساکن نمی سے بھر آئی ہوئی، جیسے سیاہ کجھور پہ شبنم کی ملگجی ترائی امڈ آئی ہو، ابرو یوں ہورہے کہ جیسے عقاب اڑنے کے آسن میں منجمد ہو گیا ہو، سانس پھول رہی ہے، وہ سینہ جو راز نبوت کی قبر تھا، دباؤ سے اوپر آیا پھر نیچے پھر اوپر پھر نیچے، سینے پہ تنی چادر سینے کی تھراہٹ کے دریں تھر تھرا رہی ہے، حلق سے مسلسل سانس کی سنسناہٹ نتھنوں کے راستے امڈ تی چلی آ رہی ہے جیسے اس امانت کا دباؤ سہہ نا پائی ہو ، نقاہت سے کن اکھیوں سے سامنے کے منظر پہ نگاہیں مرکوز کیے جاتا ہے!
 کمرہ جسکی چھت بہت ہی نیچی! دروازے کا پردہ آہستگی سے ہٹا، سفید دستار رکھے ابن ابی طالب پہلو میں آرہے! بنت ابی بکر نے اپنے سر کی چادر درست کی، ہیولہ’ کہ جنکی ران پہ سر رکھے ہوئے تھا، آنکھ دراز کرکے آنے والے پہ آنکھ اٹھا دی، پیچھے سے انس بن مالک داخل ہوئے کرب میں نہائے ہوئے ابی بکر داخل ہوئے، آنکھ اٹھا نہ پائے تو پہلو میں دیوارسے لگ کر ٹکٹکی رکھ دی، پردہ ہٹا اک ننھی سی لڑکی، تین دبیز چادروں میں لپٹی صرف آنکھیں نظر آ رہیں ہیں، جوں داخل ہوئی سب کی نگاہیں فرش کو جا لگیں، اٹھی تو اٹھی نگاہ دلارِ حرم کی، تھرا کے باپ کے پہلو میں آرہی! یوں دھڑ ڈھڑائی کہ رسول ﷺ کا ہاتھ اسکے چہرے پہ آیا، نمی صاف کرتا ہوا ساکن ہو رہا..
مدھم سی سسکاہٹ میں اٹی سطر کہی!
میرے بابا کو تکلیف کہ غم ہا!!
تنبورے کی تان پہ ہوا سنسنائی ملگجی سا مدھر سا لہجہ امڈ آیا!
 آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہوگی! تمہارے باپ کے پاس وہ ذات( فرشتہ) حاضر ہوئی ہے جو لمحہ اجل کسی کو نہیں چھوڑتا اب قیامت کے دن ملیں گے فاطمہ ( روہ البخاری)!
سانس اکھڑنے لگی، تین مرتبہ رخ چھت کو کیا! عائشہ رض نے گھبرا کر کہا،
آپ ہم میں ابھی رہنا پسند نہ کریں گے؟
اللھم رفیق اللاعلی ٰ
میں رفیق عالیٰ اللہ تعالیٰ کی رفاقت کو جاتا ہوں
اور
مالک اجل قفس سے نبوت اڑا لے گیا،
سیدنا انس کہتے ہیں،
 میں نے آخری مرتبہ آپ ﷺ کا چہرہ دیکھا گویا کتاب کا چمکدار ورق تھا، لوگ ابوبکر کے پیچھے کھڑے تھے، تڑپ رہے تھے۔۔ ابوبکر رض نے لوگ کی طرف اشارہ کیا، صبر کرو، ثابت قدم رہو۔۔ (.بخاری)
 مگر عمر الخطاب ہتھے سے اکھڑ گئے! تلوار نکال کے گلی میں دوڑے! مجھے قسم ہے کہے جو کہتا ہے آپ ﷺ نہیں رہے، خوں میری تلوار کھائے گی اسکا !
ابوبکر رض نے پکڑ کر کہا
 اے قسم کھانے والے تو ٹھہر جلدی نہ کر! جان لے وہ نہیں رہے! عمر رض لڑکھڑا کے زمیں پہ آبیٹھے!
وفات کے وقت بلال بن رباح قابو میں نہ رہے، گھٹنوں کے بل گرے پاہنی پکڑ کے بولے!
 میرے آقا مہوِ خواب ہیں یا ابی بکر، ابھی بیدار ہوکرغلام کو یاد کریں گے، ہاں ہاں کہیں گے یا بلال یا بلال ! اے بلال! !!
جسد اطہر کو حجرہ میں ہی نیچے اتارا گیا۔۔۔۔
انس بن مالک فاطمہ رض کے پاس تدفین کے بعد لوٹے تو!
کندھا پکڑ کہا!
انس کیا تمہارے دل رسول کے جسد پہ مٹی ڈالنے پہ راضی ہوگئے تھے، کیا تم کر پائے انس؟
بلال مدینہ دل برداشتہ ہوکر چھوڑ گئے! خواب میں آئے!
ماھزا الجفوہ یا بلال ما آن لک ان تزرونا ؟
 یہ کیا بے وفائی ہے بلال تم نے ھم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا؟ .کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا! ( سیرت حلیبیہ)
سر پٹ بھاگے حسین رض نے کہا
یا بلال نشتھی نسمع اذانک الذی کنت توذن لرسول اللہ صلی اللہ تعالی فی المسجد
اے بلال آج وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ رسول اللہ کو سنایا کرتے تھے
اذان دی ، اشھدن محمد پہ پہنچے تو لڑکھڑا کے فرش پہ اوندھے منہ آگرے، بے ہوش ہورہے!
 پھر قبر مبارک کو روانہ ہوئے دیوانگی یوں کہ حجروں میں ڈھونڈھتے پھرے۔۔ پھر یاد آیا کہ وہ نہیں ہیں تو قبر کی سل سے لگ کر گویا ہوئے، غلام کو بلوایا ہم آئے تو تہہ خاک چلے گئے یارسول ﷺ ؟؟
Image may contain: night
Love
تخیل!
پردہ اٹھتا ہے!
مدینہ!

ربیع الاول
دوپہر سوموار
پہلا منظر:
 افقِ مدینہ پہ زردوں سے پیلاہٹ در آئ ہے ! جیسے اپنے ہی گرداب کے دردوں سے ہوا رندھ سی اُٹھی ہو، فضا جیسے کسی دلہن کی ماند گدلے سے کجلے سے چندھیا اٹھی ہے، اس بستی کے عارض و رخسار پہ گرد کا گھوگھنٹ اتر آیا!
 وہ بستی کے جیسے کسی دیوآدم کا ہاتھ طول کو پھیلا ہوا صحرا کے بیچوں بیچ مبہوت پڑا ہو، اسکے ڈبیہ ڈبیہ سے گھر جیسے انگلیوں کے کھلنڈرے خشک جوڑ جا بجا بجا رکھے ہوئے۔۔ شہر کو باہر سے آتی ہوئی سڑکیلی پگڈنڈیاں جیسے دیو آدم کے ہاتھ کی آڑی ترچھی لکیریں جانے کہاں سے آتی ہوئی شہر کے داخلی دروازے میں مدغم ہوئی جاتی ہیں، چٹان سے یک لخت مڑتی ہوئی سڑک اک زاویے سے لہراتی ہوئ جیسے کسی افسردہ نار کی زلفِ عنبریں! جسے اک عرصہ سے سنوارا نا گیا ہو، غم کھاتی ہوئی خم کھاتی ہوئی تھرا کے داخلی دروازے میں آ رہتی ہے! جیسے قسمت کی لکیر راستہ بناتی ہوئی قلب میں آ کے منقطع ہو جائے! اسکی حجت یہیں اتمام ہوتی ہے!
 تپش ایسی کہ سڑک کی اوڑ سے دائیں ہاتھ کا چھجا آنکھوں پہ بنائے چندھیا کے دیکھتے ہوئے عرابی ! تو لگتا ہے جیسے سامنے بھاپ کی حدت سے لہریں لچھ لچھ کے اوپر کو اٹھتی ہوئیں، سورج کی شہہ پہ ریت کے ہردے سے اٹھتا ہوا سراب سامنے کے منظر کو پانی پانی کیے دیتا ہے!
 داخلی دروازے سے دس فرلانگ پہ کھڑا کجھور کا جھنڈ دیکھنے پر یوں لگتا ہے کہ جیسے اک خاندان کندھے سے کندھا ملائے تصویر بنوانے کو ایک دوسرے سے لپٹ رہا ہے، بڑا درخت اسکی بغل کو چھوٹا پھر اک جنجال اک دوسرے سے نکلتا ہوا۔۔
 سورج کی حدت کے دریں اُس کجھور کے پیلے پتے سر نگوں ہوتے ہوئے ، جھنڈ کے خوشے منہ لٹکائے لچھ رہے ہیں جیسے بنی عبدالمناف کی بکریوں کے دودھیا تھن لٹک رہے ہوں، جب بھی کوئی پرند پھڑپھڑا کے خوشے سے اٹھتا عجوا کے گنٹھے، کہ ہوا غم سے بےحس تو کیا غم سر کے کٹنے کا ، دھڑ دھڑا کے چارزانوں زمیں پہ آرہتے ہیں !
 مٹیالی سفیدی میں لیپ دیے گئے گھر جنکی چھتیں اذخر و کجھور کی ٹہنیوں سے چھتیائی گئی تھیں، گھروں کی چھتوں کے کناروں کناروں کجھور کے پتے برہنہ ہوتے ہوئے جیسے جلدی میں الماری بند کرتے ہوئے اندرون کے کپڑے کا کونا الماری سے باھر لٹکتا ہوا پھنستا ہوا رہ جائے، باھر کو اندر کا گواہ کر جائے! جابجا بکھرے ہوئے گھر جیسے لُڈو کی بساط پہ رکھی گوٹیاں ویسی ہی کوٹھیاں،
 سڑک دروازے سے اندر داخل ہوتی ہے، کونوں سے ابھرتی ہوئی وسط سے گہری ہوتی ہوئی، جگہ جگہ سرخ اونٹوں کے پیروں کے دائرے پلستر ہوتے ہوئے ! گھوڑے کی ٹاپوں کی اکھڑن، اونٹ گھوڑوں کے گوبر ریت پہ خشک ہوکر جم چکے ہیں، سڑکے کے آزو بازو دیوان خانے جہاں گلا بان’ غلا بان’ مسافر کجھور کی بنی صفوں پہ سفید بھوری پگڑیوں میں لپٹے موسم کے ٹل جانے کا انتظار کر رہے ہیں، یہ سڑک سامنے اک گلی میں جاکر دم توڑ دیتی ہے۔۔
 گلی کے استقبالیے پہ عبدالرحمن بن عوف کا گھر کجھور پتوں کی ٹہنیاں دیوار سے ہوتی ہوئی گلی پہ برہنہ ہوتی ہوئیں، دائیں گھر بائیں گھر، مٹی کی ساتھ ساتھ چلتی ہوئی دیوار! گھروں کی دہلیز پہ سیاہ دبیز پردے گر رہے ہیں، جن میں دائرے لگے سوراخ جیسے ہر آنے جانے والے پہ نگاہ رکھے ہوئے ہوں،
 گلی کی نکڑ سے تین جبوں میں ملبوس آدمی داخل ہوئے ہیں، بھوری چادریں ، سیاہ پگڑیاں اک طرح دار آسن میں خود پہ گرائے ہوئے اونٹ کے سرخ چمڑے کی جوتیاں پہنے اکھڑ اکھڑ کے ڈگ بھرتے ہوئے جیسے کوئلے کی چادر پہ چل رہے ہوں اور جلد سے جلدآگے نکل جانے پہ تُلے ہوں۔۔
رسول اللہ ﷺ کی طبعیت ناگفتہ بہ ہے!!!
(آواز دیتے ہوئے صاحب کا گلا رندھ سا اٹھا)
ان پہ خدا تعالیٰ رحمت مرسل ہو، ہم ان سے یہی امید بجا لاتے ہیں !!!!
( الجواب کا گلا مزید رندھ سا اٹھا)
 آوازیں آہستہ ہونے لگیں تینوں گلی کی نکڑ تک جا چکے اب گلی میں خاموشی اتر آئی تھی! وہ گلی سیدھی مسجد کے فراغ دروازے کے منہ پہ جا کر ٹھہر گئی، چاروں رخ کی گلیاں یکے دم سے اس دراوزے پہ آکر دم توڑ دیتی ہیں۔۔
 سامنے جوتیوں کے انبار پڑے ہیں، کجھور کے تنوں کے ستون جن پہ اذخر کی چھت ڈال دی گئی تھی، عوام الناس سے کچھا کھچ سفید’ سیاہ پگڑیوں والے سر اک آسن میں مرتب نظر آرہے ہیں، مسجد کی مٹیالی دیواریں جو کہ اک دراز مرد کے شانوں تک آتی تھیں،
 دالان ہُو کا عالم! صحن میں دبیز خاموشی ، وہ جو جوتیاں پہننے کے لمحہ بھی سر نگوں نہ ہو پائے ہوں، سر جھولیوں کو آتے ہوئے خاموش ہیں۔۔۔
پردہ گرتا ہے
دوسرا منظر!
نماز فجر!
 مسجد سے متصل کھڑکی جس پہ سرخ رنگ کا پردہ تنا ہے، جابجا ٹاٹ کے پیوند سے رفع کیے گئے پھٹے کھونچے! کسی کی آرام گاہ!!!!
 اک دراز کاٹھ کا آدمی جسکے چکلے شانے، دستار کوئی پانچ گز کپڑے کا احاطہ کیے ہوئے، نوکیلی آنکھ جس میں سرمے کی دھار ٹپک رہی تھی، اپنے دونوں ہاتھ ناف سے نیچے آپس میں جکڑے پردے کے ساتھ مودب کھڑا ہے! کسی کا انتظار ہو رہا ہے!
 اہل مسجد تھرا کے آنکھیں اٹھا پردے کو تکتے ہیں صفوں پہ نگہ مرکوز کر دیتے ہیں، آیا کہ سورج طلوع ہوا چاہتا ہے!
 دراز قد کاٹھ کا آدمی پردے سے سرک کے آہستگی سے ہٹا، نا چاہتے ہوئے مصلے پہ کھڑا ہو رہا! ساٹھویں دہائی گزری جا رہی ہے! اہل مسجد گواہ، اتنی سرعت سے پہلی بار ٹانگیں تھر تھرا رہی ہیں، تکبیر بلند ہوا چاہتی ہے! مسجد کا ہالا گونجا، چکلے شانے والا ثنا پہ پہنچا! پیوند لگے پردے کا کونا اوپر کو اٹھا، اک ہیولے کا سراپا برہنہ ہو رہا، کن اکھیوں سے مقتدیوں نے دیکھا، چکلے شانے والے نے ثناء روکنا چاہی، الٹا قدم مصلے سے پیچھے کو آرہا، مقتدی کی صفوں میں دو آدمیوں نے بیچ بھنچ کر جگہ خالی کر دی، دوسرا قدم اٹھا چاہتا تھا کہ ہیولے نے دودھیا ہاتھ لہرایا! قدم منجمد ہو گئے! پردہ گرا!!
پردہ گرتا ہے۔۔
تیسرا منظر!!!
 بستر پہ دراز میانے قد کا ہیولا، آج کہ پہلی دفعہ سر دستار سے برہنہ، بال لچھ لچھ کے کنپٹی کو آتے ہوئے، داڑھی سینے پہ ایسے رکھی جیسے پادشاہ کے سینے پہ یاقوت کا سیاہ تاج دھرا ہو، ہونٹ سرخ یاقوت کی ہلاوٹ سے کوئی خوں سہلا رہے ہوں جیسے، سرخ عرق انڈیل دیا مصور نے، گلاب پنکھڑی کے جیسے ہوئے جاتے ہیں، سفیدی ایسی طاری ہے کہ جس کے روبرو دودھ کا رنگ کالا! پاؤں تلک دھاری دار چادر میں لپٹے، آنکھ ساکن نمی سے بھر آئی ہوئی، جیسے سیاہ کجھور پہ شبنم کی ملگجی ترائی امڈ آئی ہو، ابرو یوں ہورہے کہ جیسے عقاب اڑنے کے آسن میں منجمد ہو گیا ہو، سانس پھول رہی ہے، وہ سینہ جو راز نبوت کی قبر تھا، دباؤ سے اوپر آیا پھر نیچے پھر اوپر پھر نیچے، سینے پہ تنی چادر سینے کی تھراہٹ کے دریں تھر تھرا رہی ہے، حلق سے مسلسل سانس کی سنسناہٹ نتھنوں کے راستے امڈ تی چلی آ رہی ہے جیسے اس امانت کا دباؤ سہہ نا پائی ہو ، نقاہت سے کن اکھیوں سے سامنے کے منظر پہ نگاہیں مرکوز کیے جاتا ہے!
 کمرہ جسکی چھت بہت ہی نیچی! دروازے کا پردہ آہستگی سے ہٹا، سفید دستار رکھے ابن ابی طالب پہلو میں آرہے! بنت ابی بکر نے اپنے سر کی چادر درست کی، ہیولہ’ کہ جنکی ران پہ سر رکھے ہوئے تھا، آنکھ دراز کرکے آنے والے پہ آنکھ اٹھا دی، پیچھے سے انس بن مالک داخل ہوئے کرب میں نہائے ہوئے ابی بکر داخل ہوئے، آنکھ اٹھا نہ پائے تو پہلو میں دیوارسے لگ کر ٹکٹکی رکھ دی، پردہ ہٹا اک ننھی سی لڑکی، تین دبیز چادروں میں لپٹی صرف آنکھیں نظر آ رہیں ہیں، جوں داخل ہوئی سب کی نگاہیں فرش کو جا لگیں، اٹھی تو اٹھی نگاہ دلارِ حرم کی، تھرا کے باپ کے پہلو میں آرہی! یوں دھڑ ڈھڑائی کہ رسول ﷺ کا ہاتھ اسکے چہرے پہ آیا، نمی صاف کرتا ہوا ساکن ہو رہا..
مدھم سی سسکاہٹ میں اٹی سطر کہی!
میرے بابا کو تکلیف کہ غم ہا!!
تنبورے کی تان پہ ہوا سنسنائی ملگجی سا مدھر سا لہجہ امڈ آیا!
 آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی تکلیف نہ ہوگی! تمہارے باپ کے پاس وہ ذات( فرشتہ) حاضر ہوئی ہے جو لمحہ اجل کسی کو نہیں چھوڑتا اب قیامت کے دن ملیں گے فاطمہ ( روہ البخاری)!
سانس اکھڑنے لگی، تین مرتبہ رخ چھت کو کیا! عائشہ رض نے گھبرا کر کہا،
آپ ہم میں ابھی رہنا پسند نہ کریں گے؟
اللھم رفیق اللاعلی ٰ
میں رفیق عالیٰ اللہ تعالیٰ کی رفاقت کو جاتا ہوں
اور
مالک اجل قفس سے نبوت اڑا لے گیا،
سیدنا انس کہتے ہیں،
 میں نے آخری مرتبہ آپ ﷺ کا چہرہ دیکھا گویا کتاب کا چمکدار ورق تھا، لوگ ابوبکر کے پیچھے کھڑے تھے، تڑپ رہے تھے۔۔ ابوبکر رض نے لوگ کی طرف اشارہ کیا، صبر کرو، ثابت قدم رہو۔۔ (.بخاری)
 مگر عمر الخطاب ہتھے سے اکھڑ گئے! تلوار نکال کے گلی میں دوڑے! مجھے قسم ہے کہے جو کہتا ہے آپ ﷺ نہیں رہے، خوں میری تلوار کھائے گی اسکا !
ابوبکر رض نے پکڑ کر کہا
 اے قسم کھانے والے تو ٹھہر جلدی نہ کر! جان لے وہ نہیں رہے! عمر رض لڑکھڑا کے زمیں پہ آبیٹھے!
وفات کے وقت بلال بن رباح قابو میں نہ رہے، گھٹنوں کے بل گرے پاہنی پکڑ کے بولے!
 میرے آقا مہوِ خواب ہیں یا ابی بکر، ابھی بیدار ہوکرغلام کو یاد کریں گے، ہاں ہاں کہیں گے یا بلال یا بلال ! اے بلال! !!
جسد اطہر کو حجرہ میں ہی نیچے اتارا گیا۔۔۔۔
انس بن مالک فاطمہ رض کے پاس تدفین کے بعد لوٹے تو!
کندھا پکڑ کہا!
انس کیا تمہارے دل رسول کے جسد پہ مٹی ڈالنے پہ راضی ہوگئے تھے، کیا تم کر پائے انس؟
بلال مدینہ دل برداشتہ ہوکر چھوڑ گئے! خواب میں آئے!
ماھزا الجفوہ یا بلال ما آن لک ان تزرونا ؟
 یہ کیا بے وفائی ہے بلال تم نے ھم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا؟ .کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا! ( سیرت حلیبیہ)
سر پٹ بھاگے حسین رض نے کہا
یا بلال نشتھی نسمع اذانک الذی کنت توذن لرسول اللہ صلی اللہ تعالی فی المسجد
اے بلال آج وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ رسول اللہ کو سنایا کرتے تھے
اذان دی ، اشھدن محمد پہ پہنچے تو لڑکھڑا کے فرش پہ اوندھے منہ آگرے، بے ہوش ہورہے!
 پھر قبر مبارک کو روانہ ہوئے دیوانگی یوں کہ حجروں میں ڈھونڈھتے پھرے۔۔ پھر یاد آیا کہ وہ نہیں ہیں تو قبر کی سل سے لگ کر گویا ہوئے، غلام کو بلوایا ہم آئے تو تہہ خاک چلے گئے یارسول ﷺ ؟؟
Image may contain: night

Love


Like
Love
Haha
Wow
Sad
Angry

No comments:

Post a Comment