Breaking News

دین, لادینیئت اور ہم جنس پرستی تحریر : محمّد سلیم

(نوٹ : یہ میری ردِ الحاد کی انتہائی ابتدائی پوسٹ ہے جو آپریشن میں موجود نہیں ۔ اسے فری تھنکرز کے لئے لکھا گیا تھا مگر کسی ملحد میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ اسے اپروو کر کے اس کا جواب دیتا ۔ یہ وہ ملحد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم سوال پوچھتے ہیں تو مذہبی ہم پر فتوے لگاتے ہیں ۔ جب کہ آپریشن گروپ میں ملحدوں کی ہر سوال پر مبنی پرسٹ نہ صرف اپروو کی جاتی ہے بلکہ اس کا جواب بھی دیا جاتا ہے ۔)
اس دنیا کی ٩٠ فیصد آبادی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی مذہب کو مانتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی نظریہ یا عقیدہ ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہا ہے۔ انسان کے اندر موجود تجسس کا مادہ اسے ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی نظریہ یا عقیدہ رکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کے مکمل علم کے حصول تک انسان محدود علم سے بھی لا تعلقی کا اعلان کر دے۔
 مثال کے طور پر آج ہم یہ جانتے ہیں کہ دنیا بیضوی شکل کی ہے۔ مگر جب انسان یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ بیضوی ہے اس وقت وہ اسے گول سمجھتا تھا اور اس سے بھی پہلے چپٹی۔
 انسان کے لئے یہ تو ممکن ہے کہ وہ کسی کے مضبوط دلائل سن کر اپنے کمتر نظرئیے یا عقیدے سے دستبردار ہو کر اس کے بہتر نظریئے یا عقیدے کو اپنا لے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ بغیر کسی بہتر عقیدے یا نظریئے کے وہ اپنے پرانے نظریئے یا عقیدے سے بھی دست بردار ہو جائے۔
 مثال کے طور پر اگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ زمین گول ہے۔ تو کوئی شخص اپنے بہتر دلائل سے مجھ پر یہ ثابت کر سکتا ہے کہ یہ زمین بیضوی شکل پر ہے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ بغیر نیا نظریہ دیئے وہ مجھے میرے پرانے نظریئے سے دستبردار کروا لے۔ یعنی نہ زمین گول ہے نہ بیضوی یا ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ زمین کیسی ہے۔
 یہ بھی ممکن ہے کہ ہم کسی نظریئے پر پوری طرح مطمئین نہ ہوں اور مزید تحقیق کر رہے ہوں مگر پھر بھی دورانِ تحقیق ہمیں اپنے پچھلے نظریئے کو قائم رکھنا پڑے گا۔ انسان کا یہ رویہ اس کی تحقیق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
 میں نے شروع میں عرض کیا کہ اس دنیا کی زیادہ تر آبادی کسی نہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر اس دنیا میں کچھ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے۔ انہیں ہم ملحد یا دہریئے کہتے ہیں۔
 یہ لوگ دنیا کی پیدائش سے متعلق یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آ گئی ہے۔ پرائمری نیبیولا کہیئے یا اتفاقی حادثہ۔ مگر اس دنیا کا پیدا ہونا, اس میں انسان کا پیدا ہونا, جانوروں کا وجود, کیڑے مکوڑے, پیڑ پودے سب کچھ ایک اتفاقی حادثہ ہے۔ یعنی نہ کوئی خدا نہ کسی خدا کا وجود۔ یہ سارا نظام بغیر کسی خدا کے چلائے چل رہا ہے۔
 چند فیصد لوگوں کے اس رویئے کو دنیا کی باقی ماندہ آبادی نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ کیوں کہ خدا کے وجود سے متعلق سوال بہت کم ہیں۔ خدا کہاں سے آیا؟ کس نے پیدا کیا؟ ایسے چند سوال ہیں جو ملحدین میں گردش کرتے ہیں۔ اگر خدا واقعی خدا ہے تو اسے اس بات پہ مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی مخلوق کی فرمائش پر اس کے ہر سوال کا جواب دیتا پھرے۔ اور اگر اسے خدا نہ سمجھا جائے تو پھر کبا فرق پڑتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا۔ مگر خدا کے انکار کی صورت میں جو سوال کھڑے ہو جاتے ہیں ان کی تعداد نا قابلِ بیان حد تک زیادہ ہے۔
 مثال کے طور پر مجھ سے دو پینٹ کے ڈبے زمین پر گر جائیں اور ایک عجیب و غریب ڈیزائن بن جائے تو اسے اتفاقی حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر کسی تتلی کے پروں پہ مزئین رنگ, مچھلی کے جسم پہ بنے انتہائی خوبصورت نقش و نگار, زیبرا, سانپ اور چیتے کے جسم پہ بنے نقوش کو میں اتفاقی حادثہ کیسے مان لوں؟
 انسان پانی اور آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسان کا پیدا ہونا اتفاقی حادثہ اور اسی سیارے پر پانی اور آکسیجن کی کھلی فراوانی بھی محض اتفاق؟
 خوراک کی موجودگی بھی اتفاق ؟ جانوروں کی موجودگی بھی اتفاق ؟ جانوروں کا خوراک کے بڑھنے کے سائیکل سے تعلق بھی اتفاق ؟ سورج کی موجودگی اتفاق ؟ چاند کی موجودگی اتفاق ؟ سورج سے بارش تک کا واٹر سائیکل محض ایک اتفاق ؟ 
 خوراک کا منہ میں ڈالنا ؟ چبانے کے لیئے دانتوں کی موجودگی ؟ نرم کرنے کے لیئے لعابِ دہن ؟ ہضم کرنے کے لیئے نظامِ ہاضمہ ؟ ہضم شدہ خوراک کا جسم سے خارج ہو جانا سب اتفاقی حادثات ہیں ؟
 پھر خوراک کے مختلف ذائقے۔ گندم کا ذائقہ اور ہے جو کا اور۔ سیب کا ذائقہ اور ہے آم کا اور۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے ؟
 آم کی ضرورت گرمیوں میں ہے تو وہ گرمیوں میں ہی آتا ہے۔ اونٹ صحرا کا جانور ہے اور حیرت انگیز طور پہ صحرا میں پیش آ سکنے والی ہر مصیبت سے بچنے کے لئے اس کے جسم میں قدرتی صلاحیتیں موجود ہیں۔ پانی اور خوراک ذخیرہ کرنے کا نظام ۔ ریت پر بھاگنا جہاں کسی دوسرے جاندار کا چلنا محال ہو اور ریت کا طوفان برداشت کرنے کے لئے مخصوص کھال۔ کیا یہ سب اتفاق ہے ؟
 گرگٹ کا اپنے دشمن سے بچنے کے لئے رنگ بدلنا اور اس قسم کے تمام جانوروں کے دفاعی نظام کیا ان کے اندر حادثاتی طور پر آ گئے ہیں ؟ پھولوں کے مختلف رنگ ان کی خوشبوئیں سب اتفاق ہے ؟
 انسان کے گردوں کا نظام, پھیپھڑوں کا نظام, بالیدگی کا نظام, بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے سینے میں دودھ کا اتر آنا, یہ سب ایک اتفاقی حادثے کے سبب ہے؟ مرد اور عورت کے باہمی تعلق میں انتہا درجے کی لذت جو آبادی بڑھانے کی ترغیب دلاتی ہے, محض ایک اتفاق ہے ؟
 یہ میں نے چند مثالیں دی ہیں آپ کی سوچ کو آغاز بخشنے کی خاطر ورنہ سوالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جن کا جواب انسان کو تلاش کرنا ہے خدا کا انکار کرنے کے بعد۔
 ہاں اگر کوئی تحقیق کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے مگر دورانِ تحقیق اس کا کیا عقیدہ ہو گا ؟ اس وقت انسانوں کی زیادہ تر تعداد کا عقیدہ یہی ہے کہ خدا موجود ہے اور یہ سارا نظام خدا ہی چلا رہا ہے۔ مگر جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس متبادل کیا ہے ؟ یا ان تمام سوالوں کے جواب میں اپنے دماغ کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہیں کہ جلد ہی انسان جواب تلاش کر لے گا ؟
 پھر ایک ستم یہ بھی ہے کہ جو لوگ خدا کا انکار کر بیٹھتے ہیں وہ ایسی برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن کا فطرت سے کوئی سروکار نہیں۔ آپ کو شاذ و نادر ہی کوئی ملحد ایسا ملے گا جو ہم جنس پرست نہ ہو۔ یہ معاملہ بھی بحث طلب ہے کہ دین سے دوری اس اخلاقی گراوٹ کی وجہ بنتی ہے یا پھر اس اخلاقی بیماری میں مبتلا ہونے والے کو مجبوراً دین چھوڑنا پڑتا ہے کیوں کہ کوئی بھی دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
 کسی بھی دوسرے گنہگار کی طرح ہم جنس پرست بھی اپنے دفاع میں دلائل رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل چوں کہ جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے لہٰذا اسے عین فطرت سمجھا جائے گا۔
 اس بات سے قطع نظر کے جانور ہم جنس پرست ہوتے ہیں یا نہیں, یہ بات قابلِ تسلیم نہیں ہے کہ جو فطرت کسی بھی جانور میں موجود ہو اسے انسان بھی اپنا سکتا ہے۔ مثلاً ہمارے ملک میں ایک بکرا پایا جاتا ہے جو اپنا پیشاب پیتا ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے۔ خنزیر اپنی غلاظت کھاتا ہے یہ اس کی فطرت ہے۔ غلاظت کے گڑھے میں ایک بار انسان پھسلنا شروع ہو جائے تو حدود و قیود ختم ہو جاتی ہیں۔
 ایک اور تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ یہ ایک پیدائشی نقص ہے جیسے خدا نے خواجہ سراؤں کو ایک نقص کے ساتھ پیدا کیا ویسے ہی ہم جنس پرست اس نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی ملحد کم از کم اس حد تک تو خداؤں کو مانتے ہیں کہ انہیں بے شک خدا نے پیدا نہیں کیا مگر جو نقائص ان کے اندر موجود ہیں وہ خدا کے پیدا کردہ ہیں۔ بحرحال یہ تاویل بھی قابلِ قبول نہیں ہے کیوں کہ خواخہ سرا معذوری کے زمرے میں آتے ہیں مگر ہم جنس پرست کسی بھی اعتبار سے معذوری کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان کے ہاں معذوری کی تعریف یہ ہے کہ انہیں اپنی مخالف جنس میں اتنی کشش محسوس نہیں ہوتی جتنی ہم جنس میں ہوتی ہے۔ یہ معذوری میرے نزدیک ایسے ہی ہے جیسے کوئی شرابی کہے کہ مجھے جو مزا شراب پینے میں آتا ہے وہ دودھ پینے میں نہیں آتا اور یہ نقص میرے اندر خدا نے ڈالا ہے۔
 پھر ہم جنس پرستوں کا ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ انہیں کھلے عام ہم جنس پرستی کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔ باقی دنیا ان سے نفرت کیوں کرتی ہے۔ اس بات کا قائل تو میں بھی نہیں کہ کوئی شخص اپنی انفرادی حیثیئت میں ایسے لوگوں کو سزا دینے کے لیئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ مگر اگر آپ کا کوئی عمل ریاست کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے تو لامحالہ آپ کو اپنا عمل ہی چھوڑنا پڑے گا یا پھر ریاست چھوڑنی پڑے گی۔ کیوں کہ جس ملک میں جس کے پاس طاقت ہے وہ اپنے لوگوں کے مزاج کے مطابق قوانین طے کرتے ہیں۔ اقلیتوں کی خواہش پر کبھی قوانین بدلے نہیں جاتے۔
 یہ حقیقت بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس دنیا کے تمام ممالک پہ مذہبی اجارہ داری ہونے کے باوجود دنیا کے کسی بھی خطے میں قانونی طریقے سے شادی شدہ لوگوں کے اختلاط کے لئے کوئی ایک بھی کلب موجود نہیں ہے نہ ہی کبھی کسی کو ضرورت محسوس ہوئی۔ مگر ہم جنس پرستوں کو اپنے جذبات کی آزادی کے ساتھ تسکین کے لئے کلب درکار ہیں۔ اور حکومتوں نے ان کو یہ سہولت مہیا بھی کی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ دنیا کی ٩٠ فیصد آبادی ان سے نفرت کے جذبات رکھتی ہے, ہم جنس پرستوں کے ریوڑ کو کسی ایک جگہ اکٹھا کر دینا عمر متین جیسے لوگوں کے مقاصد کو اور آسان بنا دیتا ہے اور اس کی فرمائش خود ہم جنس پرستوں کی طرف سے آتی ہے۔ اگر یہ چھوٹا سا ٹولا اپنے قابلِ نفرت عمل کو رازداری سے اپنے گھروں میں محدود رکھتا تو عمر متین کو ایک طویل عرصہ لگتا اتنے لوگوں کو قتل کرنے میں جتنے اس نے چند منٹوں میں کر دیئے۔ ہو سکتا ہے ایک آدھے قتل کے بعد پکڑا بھی جاتا۔
 مذہبی لوگ ہم جنس پرستی کو اچھا سمجھیں یا برا مگر میں اپنی ذاتی حیثیئت میں کم از کم ملحدین کے لئے ہم جنس پرستی کو برا نہیں سمجھتا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ ہم جنس پرستی سے اولاد پیدا نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا جن ملحدین سے آج میرا واسطہ ہے کم از کم میرے بچوں کا ان کی اولادوں سے واسطہ نہیں پڑے گا۔ بلکہ اگر ان ہم جنس پرستوں کے ماں باپ بھی ہم جنس پرست ہوتے تو آج میں بھی کافی سکون میں ہوتا۔ خدا کے وجود کا انکار کرنے والوں کا اپنا ہی کوئی وجود نہ ہوتا۔ ایک نا پاک قطرے سے پیدا ہونے والا انسان پیدا ہونے کے بعد اتنا مغرور ہو جاتا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کی پیدائش پہ سوال کھڑے کر دیتا ہے۔ تو نہ یہ پیدا ہوں گے نہ ہی یہ سوال پیدا ہو گا کہ خدا کو کس نے پیدا کیا۔
Image may contain: text

Show More Reactions

No comments:

Post a Comment