Breaking News

مذہب کا ارتقائ اور مارکسی نظریہ۔ عریشہ ملک کی پوسٹ کا جواب

Beneyameen Mehar
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين ، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ، وبعد، مذہب کو اقرار خدا سے انکا ر خدا تک پہنچانے میں نام نہاد ارتقائی مطالعہ کا بھی دخل ہے یہ حضرات یہ کرتے ہیں کہ پہلے ان تمام چیزوں کو جمع کر لیتے ہیں جو کبھی مذہب کے نام سے منسوب رہی ہیں پھر اس کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان کے درمیان ایک ارتقائی ترتیب قائم کر لیتے ہیں جس میں ایسے تمام پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سےان کی مزعومہ ارتقائی ترتیب مشتبہ ہو سکتی ہو مثلاً کہتے ہیں

“انسانیات اور سماجیات کے ماہرین نے زبردست مطالعہ اور تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا ہے کہ خدا کا تصور کئی خداؤں سے شروع ہوا اور بتدریج ترقی کرتے کرتے ایک خدا تک پہنچا ۔لیکن یہ ترقی ان کے نزدیک الٹی ہوئی ہے کیونکہ خدا کے تصور نے ایک خدا کی شکل اختیار کر کے اپنے اپ کو تضاد میں مبتلا کر لیا ہے ۔کئی خدا کا تصور کم از کم اپنے اندر یہ قدررکھتا تھا کہ مختلف خداؤں کو ماننے والے ایک دوسری کو تسلیم کرتے ہوئے باہم مل جل کر رہیں مگر ایک خدا کے عقیدے نے قدرتی طور پر تمام دوسرے خداؤں اور ان کو ماننے والوں کو باطل ٹھہرا یا اور برتر مذہب کا تصور پیدا کیا جس کی وجہ سے قوموں اور گروہوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں شروع ہو گئیں، اس طرح خدا کے تصور نے غلط سمت میں ارتقا کرکے خود ہی اپنے لئے موت کا سامان مہیا کر دیا ہے کیوں کہ ارتقا کا کا قانون یہی ہے”۔
‏Man in the Modern World p.112
اس ارتقائی ترتیب میں صریح طور پر اصل واقعہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کیوں کہ معلوم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے پیغمبر حضرت نوحؑ تھے اور ان کی دعوت کے متعلق ثابت ہے کہ وہ ایک خدا کی دعوت تھی اس کے علاوہ تعدد الہ(Polytheism) کا مطلب بھی مطلق تعدد نہیں ہے کبھی کوئی قوم ان معنوں میں مشرک نہیں رہی ہے کہ وہ بالکل یکساں نوعیت کے کئی خدا مانتی ہو ۔اس کے برعکس تعدد آلہ کا مطلب ایک بڑے خدا کو مان کر کچھ اس کے مقربین خاص کا اقرار کرنا ہے جو ذیلی خداؤں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔شرک کے ساتھ ہمیشہ ایک خدا یا متعد خدا نگان کا تصور پایا جاتا رہا ہے ۔ایسی حالت میں اوپر پیش کیا گیا ارتقائی مذہب کا استدلال ایک بے دلیل دعوی کے سوا اور کیا ہے۔
اشتراکی مارکسی نظریہ تاریخ اور زیادہ لغو ہے یہ نظریہ اس مضرو ضہ پر مبنی ہے کہ اقتصادی حالات ہی وہ اصل عامل ہیں جو انسان کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں، مذہب جس زمانے میں پیدا ہوا وہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کا زمانہ تھا اب چونکہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے اس لئے اس کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاقی و مذہبی تصورات بھی یقینی طور پر اپنے ماحول ہی کا عکس ہوں گے وہ لوٹ کھسوٹ کے نظریات ہوں گے مگر یہ نظر یہ علمی حیثیت سے کوئی وزن رکھتا ہے اور نہ تجربہ سے اس کی تصدیق وتی ہے۔
یہ نظریہ انسانی ارادہ کی بالکلیہ نفی کر دیتا ہے اور اس کو صرف معاشی حالات کی پیدا وار قرار دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں جس طرح صابن کے کارخانے میں صابن ڈھلتے ہیں اسی طرح آدمی بھی اپنے ماحول کے کارخانے میں ڈھلتا ہے وہ الگ سے سوچ کر کوئی کام نہیں کرنا بلکہ جو کچھ کرتا ہے اسی طرح مطابق سوچنے لگتا ہے اگر یہ واقعہ ہے تو مارکس جو خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیدا ہوا تھا اس کے لئے کس طرح ممکن ہوا کہ وہ اپنے وقت کے معاشی حالات کے خلاف سوچ سکے؟ کیا اس نے زمین کا مطالعہ چاند پر جاکر کیا تھا اگر مذہب کو پیدا کرنے والی چیز وقت کا اقتصادی نظام ہے تو آخر مار کسزم بھی وقت کے اقتصادی نظام کی پیداوار کیوں نہیں ہے؟ مذہب کی جو حیثیت مارکسزم کو تسلیم نہیں ہے وہی حیثیت اس کے اپنے لئے کس طرح جائز ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اشتعال انگریز حد تک لغو ہے اس کے پیچھے کوئی بھی علمی اور عقلی دلیل موجود نہیں۔
تجربے سے بھی اس نظریئے کی غلطی واضح ہو چکی ہے۔ روس کی مثال اس کو سمجھنے کے لئے کافی ہے جہاں تقریباً آد ھی صدی سے اس نظریہ کو مکمل غلبہ حاصل رہا ۔ طویل ترین مدت سے زبردست پروپیگنڈا ہو ا کہ روس کے مادی حالات بدل گئے ہیں۔ وہاں کا نظام پیدا وار نظام بتا دلہ اور نظام تقسیم دولت سب غیر سرمایہ دار انہ ہو چکا ہے ۔مگر اسٹالن کے مرنے کے بعد خود روسی لیڈروں کی طرف سے تسلیم کیا گیا ہے کہ اسٹالن کے زمانہ حکومت میں روس کے اندر ظلم وجبر کا نظام رائج تھا اور عوام کا اسی طرح استحصال کیا جارہا تھا جیسے سرمایہ دارانہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ روس میں پریس پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہونے کی وجہ سے اسٹالن کے لئے یہ ممکن ہو سکا کہ وہ اپنے ظلم اور استصال کو دنیا کے سامنے عدل و انصاف کے نام سے مشہور کرے ۔ پریس کا یہی کنٹرول اب بھی وہاں جارہی ہے تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ آج بھی خوبصورت پرپیگنڈے کے پس منظر میں روس کے اندر وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو اسٹالن کے زمانے میں ہوتا تھا روسی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگرس (فروی ۱۹۵۶) نے اسٹالن کے مظالم کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد اگر پارٹی کی کوئی اور کانگرس خروشچیف کی درندگی کا راز فاش کرے تو اس میں ہر گز اچنجھے کی کوئی بات نہ ہو گئی۔(اکتوبر ۱۶۶۴ء میں خروشچیف کی برطرفی اور اس کے بعد کے واقعات سے اس کی تصدیق ہو چکی) آدھی صدی کے اس تجرے سے جو نتیجہ نکلا ہے اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ پیدا وار ا اور تبادلہ کی نام نہاد تبدیلی سے انسان نہیں بدل جاتے اگر انسانی ذہن نظام پیدا وار کا تابع ہوتا اور اسی کے مطابق خیالات پیدا ہو ا کرتے تو اشتر کی حکومت میں ظلم اور استحصال کی ذہینت بھی یقینی طور پر پیدا نہیں ہونی چاہئے تھی۔
والله اعلم

No automatic alt text available.


Show More Reac

No comments:

Post a Comment