Breaking News

سوشل میڈیا کو بند کردینے کے بیان کے بعد

سپریم کورٹ کے جج کی جانب سے سوشل میڈیا کو بند کردینے کے بیان کے بعد جہاں ایک طبقہ اسکی پرزور حمایت کر رہا ہے تو تو دوسرا طبقہ اسلئے مخالفت کر رہا ہے کہ اسکی روزی روٹی اسی سے بندھی ہوئی ہے . جب کہ کچھ ایسے حضرات بھی سوشل میڈیا کو بند کردینے کی مخالفت کر رہے ہیں جن کی نیت میں رتی برابر بھی کوئی شک نہیں لیکن وہ عقلی پہلو استعمال کرتے ہوئے محاذ پر ڈٹے رہنے کی بات کرتے ہیں .
 سوشل میڈیا کو بند کردینے کی بات جذباتی لگتی ہے اور ہے بھی ، اور ہو بھی کیوں نا ؟
محبت میں جذباتیت صرف اسلام ہی نہیں بلکہ اس خطہ کی مٹی میں رچی بسی ہے . مرزا و صاحبہ ، سسی و پنوں ، جہانگیر و نور جہاں ، شاہ جہاں و ممتاز محل ، ہیر و رانجھا ، سوہنی و مہیوال ، مومل و رانا مہندرا ، پرتھوی راج چوہان و سم یکتا ، راجپوت حکمران بپا دتیا و سولنکی غرض ایک لمبی داستان ہے محبت اور اس پر قربان ہوجانے والوں کی اپنا سب کچھ تیاگ دینے والوں کی ...
 ایک طرف یہ زمین و ثقافت کی گھٹی تو دوسری جانب اپنے یار حبیب صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بے سر و سامانی کے عالم میں چل نکل پڑنے والے صدیق ابو بکر رضی الله عنہ کی سنت ، حضرت علی کرم الله وجہ کا اس بستر پر سکوں سے سوجانا کہ جس پر دشمن موت کا نشان لگا چکے ہوں ، عمر فاروق رضی الله عنہ کا ننگی تلوار سمیت دشمن قبائل کے سامنے کھڑے ہوجانا ، عثمان رضی الله عنہ کا اپنا مال لٹا دینا یا پھر حضرت بلال رضی الله عنہ کا مکہ کی تپتی زمین پر ننگی پیٹھ پر کوڑے کھانا یہ سب محبت میں بے انتہا جذباتیت ہی تو تھی ، آپکو کیا لگتا ہے یہ سب اعمال اس وقت کے لوگوں کو عقل والے لگتے تھے ؟
 کاش مکہ کی وہ ہوائیں اپنے اندر موجود وہ قہقہہ اور تیز تحقیر آمیز جملے ساری دنیا پر جاری کردے کہ جب بلال حبشی رضی الله عنہ تڑپ تڑپ کر احد احد کہ رہے تھے تو تماش بین قریش اسے کم عقلی قرار دیتے ہوئے قہقہے بلند کر رہے تھے .
 ایک دفعہ امیہ بن خلف حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بے پناہ تشدد کر رہا تھا اور کہتا جاتا ”تو کہہ میں لات و عزیٰ پر ایمان لایا“۔ حضرت بلال نے فرمایا ”میں لات اور عزیٰ سے بے زار ہوا“۔ امیہ بن خلف غصے سے لال پیلا ہوگیا اور حضرت بلال کے سینہ پر بیٹھ کر آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ یہاں تک کہ حضرت بلال بے حس و حرکت ہوگئے۔ صبح سے لے کر شام تک آپ بے ہوش پڑے رہے۔ اس کے بعد جب ہوش میں آئے تو امیہ بن خلف نے کہا ”کہو میں لات اور عزیٰ پر ایمان لایا“۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور پھر احد احد کہا۔
کاش مکہ کی ہوائیں پھر وہ آوازیں بھی  ساری دنیا پر جاری کردے کہ جب فتح مکہ کے بعد یہی بلال حبشی رضی الله عنہ خانہ کعبہ کے چھت پہ چڑھ کر الله اکبر کی صدا بلند کرتا ہے تو وہی قہقہوں والی آوازیں حسرتوں میں ڈوب کر بلال پر رشک کر رہی ہوتی ہیں .
اور ہم تو خیر سے ان دونوں جذبات کا مکسچر ہیں ، یہ ہماری ہی روایت ہے کہ ہم نوکری کو لات مار دیتے ہیں ترقی کے مواقع کو جوتے تلے روند دیتے ہیں پر داڑھی ایک انچ کم کرنے پر راضی نہیں ہوتے ، یہ ہماری ہی خواتین کا شیوہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم و ہنر ہونے کے باوجود بڑے اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھ دیتی ہیں جب ان سے انکا سر ننگا کرنے کو کہا جاتا ہے .
یہ ہماری ہی روایت ہے کہ تانگے چلانے والا شاتم رسول کے ساتھ وہ کام کر بیٹھتا ہے کہ خود سرخرو ہوجاتا اور باقی سارے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں . ممتاز قادری کو آپ لاکھ برا کہو ، لاکھ تاویلیں دو پر وہ اسی مٹی کا سپوت تھا اور اپنی مٹی کی تاثیر اس سلمان تاثیر کو دکھا گیا ..
 ممتاز قادری کے بارے میں جس بات نے سب سے زیادہ مطمئن کیا وہ اسکی موت تھی . کہ وہ اپنے قدموں سولی تک چل کر گیا اور بے خوف و خطر پھندے کو گلے سے لگایا .
میرے والد صاحب اک سیاسی جماعت  کی "مہربانی" سے چھ ماہ سکرنڈ جیل میں گزار چکے ہیں جہاں سندھ کے ایک داڑھیال ممتاز ملاح ( جس ڈاکو پر حکومت نے انعام رکھا ہو ) نے انہیں اپنا بڑا بھائی بنا لیا ، ممتاز چچا نے خاندانی دشمنی میں کتنے قتل کئے تھے یہ خود انہیں بھی یاد نہیں پر اک بار جب جیل ان سے ملنے گیا تو پوچھ ہی لیا کہ اک انسان کو کیسے قتل کرلیتے ہیں آپ ؟ اس وقت میری عمر کوئی چودہ برس ہوگی ، انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ " بیٹا انسان کو مارنا کتے کو مارنے سے بھی زیادہ آسان ہوتا ہے ، جب انسان کو معلوم ہوجاۓ نا کہ موت اسکے سامنے آ کھڑی ہے تو اسے اپنا وہ گناہ سامنے نظر آنے لگتا ہے کہ جسکی سزا واقعی موت ہونی ہے لہٰذا اسکے ہاتھ پیر ویسے ہی ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ، اس سے قبل کہ گولی اسکے جسم کو چھوئے وہ پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے . "
اس کے بعد کئی لوگوں کی پھانسیوں متعلق پڑھا ، بظاھر بہادر اور گرجدار آواز رکھنے والے ان مہا رتیوں کو بھی جانا کہ جنہیں پھانسی گھاٹ تک سٹریچر میں لے جانا پڑا اور کچھ لپٹ لپٹ اور بلک بلک کر روتے رہے . ایسا صرف مسلمان کے لئے ہی ممکن نہیں بلکہ ہر وہ شخص جسے پتا ہو کہ وہ حق پر کھڑا ہے اسکی موت بڑی پروقار طریقہ سے انجام پائی ہے پھر چاہے وہ ممتاز قادری ہو یا بھگت سنگھ یا پھر چی گویرا . بزدل و جھوٹا آدمی موت کا خوف برداشت نہیں کر سکتا .
لہٰذا اگر آپکو ہمارے فیصلے کم عقلی یا جذباتیت والے لگتے ہیں تو جناب آپ برحق ہیں یہ بلکل ایسے ہی ہوں گے کیوں کہ عشق میں جذباتیت ہمارے مذہب کی بھی روایت ہے اور ہماری دھرتی و ثقافت کی بھی :)
آپ آج ہمارے جذبات کا مذاق اڑا رہے ہیں ضرور اڑائیے
پر آپکی آنے والی نسلیں ہم پر رشک کریں گی :)
تحریر : ملک جہانگیر اقبال



Image result for facebook ban





No comments:

Post a Comment