Breaking News

مسلم ممالک میں شدت پسندی کی لہر کیسے آئ؟


‎اگر آپ کسی مسئلہ کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو اُس کا سرا پکڑنا ہوتا ہے اور اس کا نقطۂ ابتداءتلاش کرنا ہوتا ہے.... ہم اس کی تحقیق میں کہ مسلم ممالک میں کہیں جو شدت پسندی نظر آتی ہے اسکی وجہ کیا ہے ؟، ابتداء سے مسئلے کو دیکھتے ہیں۔
‎اسلامی تاریخ کا ایک بد ترین دور گزارا ہے، اور جس سے ہر شخص واقف ہےیعنی استعمار کا دور۔ جب یہ استعمار باقاعدہ فوجوں اور ہتھیاروں کے زور پر عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گیا تھا۔ اُس وقت عالم اسلام کو اس کافر استعمار کے خلاف ایک مزاحمت کرنا تھی۔ غیر مسلم قوموں نے اپنے گھروں پر چڑھ آنے والے استعمار کے خلاف مزاحمت کیلئے ہتھیار اٹھائے تو مسلمانوں کے لئے بھی یہ کوئی شجر ممنوعہ نہ تھاکہ غیر قوموں کیلئے تو مزاحمت جائز ہو مگر ان حق میں یہ حرام ہو! ہر قوم اپنے تحفظ کیلئے ہتھیار اٹھانے کی مجاز ہو البتہ ہماری شریعت ایسی ہو جو ہمارے ہاتھ پیر باندھ کر ہمیں بیرونی بھیڑیے کے آگے ڈال دینے والی ہو ۔
‎ایسے نابغے ہمارے یہاں اب بھی ہیں جو استعمار کے خلاف ہونے والی ہماری اُس مسلح جدوجہد کو 'غدر' اور 'کفرانِ نعمت' سے تعبیر کریں ۔ ہماری قوم کا ایک بہت بڑا حصہ البتہ اس کو کم از کم ایک "آزادی کی جنگ" تعبیر کرتا ہے۔ اِس مزاحمتی جنگ کیلئے عالم اسلام کو لازمی بات ہے، "طاقت" کا راستہ استعمال کرنا تھا۔ اب ذرا ذہن میں رہے ہم نے لفظ استعمال کیا ہے: "طاقت" کا راستہ، نہ کہ "تشدد" کا راستہ۔
‎کافر استعمار کے خلاف عالم اسلام کی جو مزاحمت سامنے آئی، سبھی کو معلوم ہے اس کا روح رواں یہاں کے دین سے متمسک طبقے تھے اور جرأت وبسالت کی یہ سب داستانیں رقم ہوئیں ۔ بیرونی استعمار کے خلاف مزاحم قوتوں اور توانائیوں کا اصل محرک "دین" ہی تھا اور "دین" کے سوا کچھ نہ تھا۔ استعمار کے خلاف جہاد کسی ایک خطے کا واقعہ نہ تھا؛ یہ فنامنا پورے عالم اسلام کے اندر دیکھا گیا؛ اور بعض خطوں کے اندر تو اِس نے واقعتا استعمار کو بے بس کر کے رکھ دیا تھا۔ ہر ہر جگہ "اسلامی" جماعتیں اور جتھے تھے جو عالم اسلام کو آزادی دلانے کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔ 
‎آپ اُس دور کی تاریخ پڑھ لیجئے۔مراکش میں چلے جائیے، آپ کو اسلامی مزاحمتی گروپ ملیں گے۔ الجزائر میں چلے جائیے، آپ کو اسلامی تحریک نظر آئے گی جس کی قیادت عبد الحمید بن بادیس نے کی۔ لیبیا چلے جائیے، آپ کو عمر مختار کے 'جہادی' ملتے ہیں۔ افریقہ کے اندر سنوسی، مہدی سوڈانی، داغستان میں امام شامل، ہند میں تحریک مجاہدین۔ شام سے فلسطین پر صیہونی یلغار کے خلاف عزالدین قسام کے مجاہد دستے۔ اِس کے بعد اسرائیل میں جہاد کے اندر اخوان کے فدائی دستے۔ صومالیہ میں مزاحمت ہوئی تو وہاں پر قربانیاں دینے کیلئے اسلام پسند۔ غرض عالم اسلام کی عزت و آبرو کیلئے "اسلامیوں" کے سوا خون ہی کس نے دیا ہے؟ ہر جگہ آپ کو مجاہد علماءنظر آئیں گے اور مجاہد نوجوان۔ شمالی افریقہ تا ہند تا ترکستان.... ان کے مناہج میں چاہے کتنا بھی فرق پایا گیا ہو مگر تھے یہ دین کے پرودہ۔کم ہی کوئی ہوں گے جو آج اُس مزاحمت کو "جائز مزاحمت" اور "استعمار کے خلاف جہاد" کا نام نہ دیتے ہوں۔بہت سارے اسباب ہوئے.... کہ بالآخر استعمار سے عالم اسلام کی جان چھوٹ گئی۔ 
‎کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ آزادی کے فوراً بعد کے سالوں میں کہیں پر بھی دینی قوتوں نے بغاوت کا علم بلند کیا ہو اور 'مسلح جہاد' کا اعلان کر دیا ہو؟ ہاں وہ دین جس کیلئے یہ ایک صدی تک لڑے تھے، اُس کو غالب کرانے کی آواز اٹھانا، اور جوکہ انہوں نے ایک نہایت پرامن انداز میں اٹھائی تھی، اور جس کا حق ان کو 'ازروئے جمہوریت کی نیلم پری' بھی حاصل تھا، آخر کونسا جرم ہے؟
‎ہر ملک میں غلبۂ اسلام کی آواز ضرور اٹھائی گئی تھی، لیکن کوئی ایک ایسے ملک کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جہاں غلبۂ اسلام کی دعوت دینے والے بندوقیں اٹھا کر آئے ہوں؟ ایک پر امن جدوجہد کا حق سب کو ہے تو آخر اِن کو اپنے نظریات پھیلانے کیلئے کیوں حاصل نہیں ہے؟ مگر ان کے ساتھ ہر ہر ملک میں کیا ہوا؟ ان کو کس کس طرح دیوار سے لگایا گیا؟ میرا خیال ہے کسی سے یہ بات اوجھل نہیں۔موجودہ دور میں مصر کی مثال سب کے سامنے ہے۔
‎ہر ہر ملک کے اندر ایک سیکولر طبقہ، جو عین اُسی دین ِ استعمار پر ہوتا ہےاور عالم اسلام کو اُسی بیرونی استبداد کے پس ِ استعمار ایجنڈا میں جکڑ رکھنے کیلئے سرگرمِ عمل ہوتا ہے.... یہ آزادی کے فوراً بعدہر ہر ملک کے اندر اسلام پسندوں پر ظلم کا کوڑا برسانا شروع کر دیتا ہے۔ چند سال نہیں گزرنے پاتے کہ وہ بیشتر دیندار طبقے جو استعمار کے خلاف مزاحمت کا روحِ رواں رہے تھے (پس آزادی) بیشتر ملکوں کے اندر آپ کو وہ جیلوں کے اندر ٹھونسے ہوئے ملتے ہیں!
‎ہم مانتے ہیں اسلامی طبقوں میں بھی ضرور کہیں پر غلو یا تشدد دَر آیا ہو گا، لیکن یہ اُس تشدد کے بعد، بلکہ اُس تشدد کے نتیجے میں، جو پس آزادی یہاں کے حکمران طبقوں کی جانب سے اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے سب کے سب طبقوں پر روا رکھا گیا۔
‎عجیب بات ہے، یورپی ملکوں میں کوئی طبقہ اگر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف لڑا ہے تو آزادی حاصل کرنے کے بعد وہی اِس قابل مانا گیا کہ قوم اس کے گردا گرد اکٹھی ہو اور اسی کے زیر قیادت ملک کی تعمیر نو کرے۔ مگر ہمارے عالم اسلام میں الٹی گنگا بہی۔ جو طبقہ استعمار کے خلاف مزاحمت کرتا رہا تھا، اُس کی جزا ہمارے ہاں یہ ٹھہری کہ وہ جیلوں اور کال کوٹھڑیوں کا باشندہ بنایا جائے۔ پورا سرکاری میڈیا اور پوری کی پوری سرکاری مشینری اُس کی کردار کشی پر جت جائے اور اس کو ایک گھناؤنی مخلوق ثابت کر کے دکھائے۔
‎اسلام پسندوں سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ اسلامی شریعت کی عملداری کا تمہارا یہ مطالبہ ہم کیسے مان لیں؛ تمہاری یہ فرمائشیں عوام کے من کو تو بھاتی ہی نہیں ہیں اور جبکہ یہاں تو تمہیں پتہ ہے 'عوام کی رائے' چلتی ہے! 
‎لیکن جب "اسلام کا مطالبہ کرنے والا یہ معتوب و ناپسندیدہ طبقہ" الجزائر ، مصرکے اندر یہ جوئے شیر بھی بہا کر دکھا دیتا ہے اور "اکثریت ِ عوام کے ووٹ" لا کر 'درِ شیریں' پر دھر دیتا ہےکہ چلئے اب تو ہمیں ملک کے اندر اسلام لے آنے دو۔ یہاں 'قوم کے ارادے' اور 'عوام کے فیصلے' کو بھی عین اُسی رعونت کے ساتھ پیر سے مسل دیا جاتا ہے محض اِس لئے کہ 'عوام کا فیصلہ' اِس بار "اسلام" کے حق میں نکل آیا ہے!
‎آپ کے سامنے کتنے مسلم ممالک ہیں جن کے اندر "اسلام" کا نام لے کرکام کرنا ہی سرے سے منع ہے، خواہ وہ کتنا ہی پر امن کیوں نہ ہو۔ ملک کے اندر "دینی جماعت" بنانے کی قانوناً اجازت نہیں، اس جماعت کی سرگرمی میں "تشدد" پائے جانے یا نہ پائے جانے کی نوبت تو اُس وقت آئے گی جب اُس جماعت کو وجود میں آنے دیا جائے گا!اور چلئے، "دینی جماعت" بنانے کی اجازت نہ ہونا بھی کچھ دیر کیلئے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ کتنے ملک ایسے رہے ہیں جہاں ایک نوجوان نماز پڑھنے لگتا ہے تو وہ 'نظروں' میں آجاتا ہے اور گھر والوں کو محض اِس وجہ سے اُس کی فکر پڑ جاتی ہے کہ اب یہ 'دین دار' سمجھ لیا جائے گا۔ نوجوان کے حق میں ڈاڑھی رکھ لینا اُس کے سب خیرخواہوں کو پریشانی میں مبتلا کر دینے والی چیز رہی ہے۔ اور پھر یہ مردوں تک محدود نہیں، کوئی نوجوان لڑکی اپنا سر ڈھانپ کر چلتی ہے تو اِس کو ایک طرح کی 'بغاوت' باور کیا جاتا ہے۔ کتنے ملک ہیں جہاں مسلم دوشیزاؤں کے سر سے سکارف نوچ لئے جاتے رہے ہیں۔ یہ سب قصے کہانیاں نہیں، حقائق ہیں اور اِن حقائق پر مبنی خبریں __کسی کسی وقت با تصویر بھی __ میرے اور آپ کے ملاحظے کیلئے اخبارات میں چھپتی رہی ہیں۔
‎پس جب قہر اور جبر اِس حد کو پہنچ گیا ہو، اور دوسری جانب سے سامنے آنے والے صبر و برداشت کا یہ صلہ دیا جاتا رہا ہو، تو پھر آپ کو یہ توقع کر لینی چاہیے کہ دوسری جانب سے بھی ضرور کوئی رد عمل سامنے آئے گا۔ اور یہاںیہ بھی ممکن ہے کہ اس رد عمل کو سامنے لانے میں کچھ طبقے اُن حدوں تک چلے جائیں جن کی اہل سنت و الجماعت کے منہج کے اندر گنجائش نہیں پائی جاتی۔چنانچہ مخالف سمت سے اگر کوئی رد عمل آیا ہے تو اِس کا جواز بہرحال حکومتوں کی جانب سے ہی فراہم کیا گیا ہے اور یہ حقیقت بے حد واضح ہے۔ ٹھیک ہے یہاں جو انتہاپسندی اور غلو پایا جاتا ہے ہم اُس کو درست نہیں جانتے، یہ اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں ۔ لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ جو غلو ہے، یہ آیا تو آیا کیسے؟


Image may contain: 1 person, fireworks

No comments:

Post a Comment