Breaking News

فری فرام تھنکنگ۔10,شیخ خالد کی پوسٹ کا جواب۔



اس پوسٹ میں حد درجے جھوٹ، دجل اور فریب سے کام لیا گیا ہے۔
۱۔ محمود غزنوی کا تزکرہ ہی نہیں کیا اور اسے لٹیرا چور کہ دیا جو کہ صرف تعصب اور ہٹ دھرمی کی علامت ہے۔
۲۔ حجاج بن یوسف کے پاس ۴۳۷ لونڈیاں تھیں یہ بات من گھڑت ہے اور تاریخ میں اس کا کوئ ثبوت نہیں ملتا۔ اس کا بھی حوالہ فراہم نہیں کیا کیونکہ اپنے منہ کی بات ہے۔
۳۔ محمد بن قاسم کی موت کے بارے میں متعصب صاحب نے نہایت ہی بھونڈی دلیل سے استدلال کیا ہے۔ گوکہ حوالہ نہیں دیا گیا مگر اس کی جڑیں چچ نامہ کی ایک روایت سے ملتی ہیں۔ چچ نامہ کی اس روایت کا خلاصہ یہ ہے:
محمد ابن علی عبدالحسن ہمدانی کہتے ہیں ک جب رائے داہر قتل ہوگیاتو محمد بن قاسم نے اسکی لڑکیوں کو اپنے محل میں قید کردیا اور پھراپنے حبشی غلاموں کے ہاتھ انہیں اپنے حاکم سلیمان بن عبدالملک کو بھجوا دیا۔ جب خلیفہ نے انہیں اپنے حرم میں بلایا تو راجہ داہر کی بیٹیوں نےخلیفہ سے جھوٹ بولا کہ وہ خلیفہ کے لائق نہیں کیوں کہ محمد بن قاسم نے انہیں پہلے ہی استعمال کر لیا تھا۔ اس بات پر وہ بہت ناراض ہوا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو بیل کی کھال میں بند کر کے واپس لے آؤ۔ محمد بن قاسم کو خط ادھفر میں ملا ۔اس کے حکم پر عمل کیا گیا تاہم بیل کی کھال میں دم گھُٹنے سے محمد بن قاسم کی راستے ہی میں موت واقع ہو گئی۔ بعد میں خلیفہ کو راجہ داہر کی بیٹیوں کا جھوٹ معلوم ہو گیا۔ اس نے محمد بن قاسم سے اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کے لئے یہ جھوٹ بولا تھا۔ حجاج نے ان لڑکیوں کو زندہ دیوار میں چنوا دیا۔
یہ روایت کس حد تک درست ہے:
غور کیا جائے تو اس روایت میں بہت سے تضادات اور بترتیب تاریخی غلطیاں ہیں۔ چچنامہ کے مطابق “محمد ابن علی ابو حسن حمدانی کہتے ہیں کہ جب رائی داہر مارا گیا، (تو) اسکی دو بیٹیوں کو انکے محل میں قید کر دیا گیا اور محمد بن قاسم نے انہیں اپنے حبشی غلاموں کی حفاظت میں بغداد بھجوادیا۔”
اس ہی کتاب (چچنامہ) میں ہمیں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ محمد بن قاسم آودھافر کے اندر “ہار رائی چندر” کے خلاف اپنے فوجیوں کو تھکا دیا:
“آج ہم اس بدبخت کافر کا قلع قمع کرنے آئے ہیں،” اور اس ہی سے تھوڑا سا آگے ہم پڑھتے ہیں،
“اگلے دن تختِ حکومت سے ایک اونٹ سوار فرمان لیکر آتا ہے۔”
اس سے صاف ظاہر ہے کہ محمد بن قاسم کو خلیفہ کے وہ فرمان تب موصول ہوئے جب ملتان کی فتح کے بعد جب وہ کانوج پر حملے کرنے پر غور کر رہا تھا۔ اب چچنامہ کا کاتب کہتا ہے، “ملعون داہر غروبِ آفتاب کے وقت قلع راور میں، 10 رمضان، سنہ 712 93 ہجری ، بروز جمعرات مارا گیا۔”
( See supra, p. 2. 4. £. & D., Vol. I, p. 208. 5. Ibid., p. 209. 6. Ibid., p. 170.)
ہم یہ جانتے ہیں کہ محمد بن قاسم کو وہ جان لیوا فرمان آودھافر میں (96 A.H) میں ملے۔۔۔!!
سزا کے عمل درآمد میں یہ کئی سالوں پر پھیلی بےجا تاخیر جس کے دوران بہت سے خطوط محمد بن قاسم نے حجاج کی طرف بھیجے اور موصول کئے جنکا ذکر ہی نہیں ملتا۔ جیسا کہ محمد ابن عبد الحسن حمدانی، محمد بن قاسم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ راجا داہر کی موت کے بعد اسکی بیٹیوں کو قید کیا گیا اور بعد میں خلیفہ کی طرف بھیج دیا، تو وہ یقیناً زیادہ سے زیادہ دو ماہ کے عرصہ میں دارالحکومت پہنچ گئی ہونگی؛ اور پھر یہ بات کہ خلیفہ نے انہیں اپنے بستر پر بلایا اور “کچھ دن کے بعد” یہ خبر ملی کہ محمد قاسم نے انہیں خلیفہ کے پاس بھیجنے سے پہلے اپنے ساتھ رکھا اور (محمد بن قاسم کیلئے) سزائے موت کے فرمان جاری کئے تو یہ فرمان زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر اندر ہی محمد بن قاسم کو مل چکے ہونگے نہ کہ راجہ داہر کی موت اور راور سے اسکی بیٹیوں کے خروج کے “کئی سال بعد”۔۔!!!
کیونکہ اسی چچ نامہ میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے برہمن آباد کے لوگوں کی بدھ مندر کے تعمیر کروائے جانے کی درخواست حجاج کو بھیج دی تھی اور اسکا جواب “کچھ دن بعد” ہی موصول ہوگیا تھا نہ کہ کئی مہینے یا سالوں کے بعد۔ ۔۔!!
یہ سب نکات اس کہانی پر سے پردہ ہٹانے کیلئے کافی ہیں ۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے ایسے پوائنٹس ہیں جو اسکے رد میں دلیل دیتے ہیں
تاریخ سندھ کے مصنف اعجاز الحق قدوسی نے بھی اسے لیے لکھا کہ :
“محمد بن قاسم کو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے حکم سے کچے چمڑے میں بند کر کے لے جایا جانا من گھڑت قصہ ہے، عرب مورخین نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔( تاریخ سندھ – اعجاز الحق قدوسی صفحہ۔ 228-229])
عرب مورخین میں مشہور مسلمان مورخ أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري نے مسلمانوں کے ابتدائی دور کی تاریخ کو قلم بند کیا ہے۔ البلاذري نے ایک کتاب فتوح البلدان کے نام سے ہے جس کا انگریزی ترجمہ فلپ کے ہِٹی(Philip K Hitti) نے ‘The Origins of the Islamic State’کے نام سے کیا ہے۔ البلاذري کے مطابق714ء میں حجاج کی موت کے بعد اُس کے بھائی سلیمان بن عبدالمالک نے حکومت سنبھالی۔ وہ حجاج بن یوسف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ اُس نے عنان حکومت سنبھالتے ہی حجاج کے رشتہ داروں اور منظورِنظر افراد کو قید کروا دیا۔ محمد بن قاسم بھی حجاج بن یوسف کے پسندیدہ افراد میں گنا جاتا تھا(یاد رہے کہ محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کا داماد بھی تھا اور بعض مورخین کا خیال ہے کہ بھانجا یا بھتیجا بھی تھا)۔
چنانچہ سلیمان نے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بناکر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے بھیجو۔ محمد بن قاسم کے ساتھیوں کو جب ان گرفتاری کا پتہ چلا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ ہم تمہیں اپنا امیر جانتے ہیں اور اس کے لئے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں، خلیفہ کا ہاتھ ہرگز تم تک نہیں پہنچنے دیں گے لیکن محمد بن قاسم نے خلیفہ کے حکم کے سامنے اپنے آپ کو جھکادیا۔ یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ان کی امداد کے لئے سندھ کے ریگستان کا ہر ذرہ آگے آتا لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ابی کبشہ کے سپرد کردیا۔ محمد بن قاسم کو گرفتار کرنے کے بعد دمشق بھیج دیا گیا۔ سلیمان نے انہیں واسط کے قید خانے میں قید کروادیا۔
مورخین نے لکھا ہے جب سلیمان نے محمد بن قاسم کے قتل کے احکامات دے دئے تو حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو خبر مل گئی ۔ تو آپ خبر ملتے ہی فوراً سلیمان کے دربار میں پہنچے۔ اور سلیمان سے کہا کہ یہ کیا تم ظلم کرتے ہو۔ حجاج کے گناہوں کی سزا ایک بے قصور کو دیتے ہو۔ اور وہ بھی اس شخص کو جس نے اسلام کی بے حد خدمت کی ہے۔ سلیمان چونکہ حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی بے حد عزت کرتا تھا۔ تو آپ کے سمجھانے پر بے حد نادم ہوا۔ اور فوراً قتل کے احکامات کی واپسی کا خط لکھ کر حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ خود یہ خط لے کر واسط کے قید خانے کی طرف روانہ ہوگئے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب آپ واسط کے قید خانے کے قریب پہنچے تو دیکھا لوگ ایک جنازہ اٹھائے آرہے ہیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ فاتح سندھ کو شہید کر دیا گیا ہے اور یہ اسی کا جنازہ ہے۔ اس عظیم شخصیت کی شہاد ت پر آپ کو بے حد دکھ ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کافی دیر تک روتے رہے۔
۴۔ متعصب صاحب کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم "ایک مسلمان عورت کی عزت بچانے کے بہانے آیا تھا"
 اوپر والی بحث سے یہ اظہر من الشمس ہے کہ ملحدین کو تاریخ کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں اور خود ساختہ سقراط بنے ہوۓ ہیں۔ کیا یہ جنگ مال و متاع حاصل کرنے کا ایک "بہانہ" تھا؟
سراندیپ کے حاکم نے جزیرہ یا قوت سے حجاج بن یوسف کے لیے کچھ قیمتی تحائف روانہ کیے جس قافلے میں کچھ مسلمان عورتیں بیت اﷲ کی زیارت اور تخت گاہ کو دیکھنے کی شوق میں کشتیوں پر سوار ہوگئیں پھر جب یہ قافلہ قازرون کے علاقے میں پہنچا تو مخالف سمت ہوائیں کشتیوں کو دیبل کے کناروں کی طرف لے آئیں۔جہاں نکا مرہ کے ٹولے نے آٹھوں جہازوں پر دھاوا بول دیا املاک کو لوٹا اور مسلمان عورتوں کو گرفتار کیا اہل سراندیپ نے انہیں بہت سمجھایا کہ یہ تحائف بادشاہ کے لیے جا رہے ہیں لہٰذا آپ یہ مال فوراً واپس کریں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور فاخرانہ انداز میں کہا کہ آج اگر کوئی تمہارا داد رس ہے تو اسے پکارو اسی اثناء میں ایک عورت کی زبان سے مظلومانہ آہ نکلی ۔ان مغویوں میں سے ایک آدمی فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچااور حجاج کو کہا کہ مسلمان عورتیں راجا داھر کے پاس قید ہیں جو تجھے مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔۔۔ اس پر حجاج نے لبیک کہا “۔ (چیچہ نامہ ص ۱۲۱)
انہیں دنوں مسلمان اندلس، سپین اور ترکستان کے محاذ علی الترتیب موسیٰ بن نصیر اور قتیبہ بن مسلم کی قیادت میں کھول چکے تھے اور ایک تیسرا بڑا محاذ کھولنے کی گنجائش نہیں تھی اسی لیے حجاج نے اتمامِ حجت اور صورتِ حال کو پر اَمن ماحول میں نپٹانے کے لیے راجہ داہر حاکمِ سندھ کو لکھ بھیجا اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ لیکن راجہ داہر نے جواب دیا کہ
” عورتوں اور بچوں کو قید کرنا اور مال و اسباب کو لوٹنا بحری قزاقوں کا فعل ہے جو میرے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ لہٰذا میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ (چیچہ نامہ ص ۱۳۱)
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حجاج بن یوسف اور ان کے کمانڈر مال و اسباب چاہتے تھے تو انہوں نے یہ سفارتی خط کیوں ارسال کیا؟ انہوں نے سیدھا حملہ کیوں نہیں کیا؟
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کو لوٹنے والے راجہ داہر کے ہی لوگ تھے لوٹا گیا مال و دولت اور عورتیں بعد میں راجہ دہر کے ہی کمانڈروں سے برآمد ہوئیں تھیں۔
راجہ دہر کے اس جواب کے بعد جو جوابی خط ارسال کیا گیا ۔ اس کا متن بھی چچہ نامہ کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں جس سے سارا معاملہ نصف النہار کی طرح واضح ہو جا تا ہے کہ وہ کیا اسباب تھے جنہوں نے محمد بن قاسم کو حملے پر مجبور کیا ؟
” ہمیں لشکر کشی کا معاملہ اس لیے پیش آیا کہ تم لوگوں نے سرا ندیپ سے آئے ہوئے مال و اسباب کو لوٹا اور مسلمان عورتوں کو قید کیا۔ جب تم لوگوں نے ایسی معیوب چیزوں کو جائز سمجھا تب مجھے دارا لخلافہ سے تم پر چرھائی کا حکم دیا گیا۔میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے تجھے مغلوب کر کے رسوا کروں گا اور تیرا سر عراق کی طرف روانہ کروں گا یا خود جام شہادت نوش کرو ں گا۔ میں نے یہ جہاد اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فرمان و جاہد و ا الکفار وا لمنافقین کے تحت اپنے اوپر واجب سمجھ کر قبول کیا ہے‘‘ ۔(چچہ نامہ)
اس خط سے بھی یہ واضح ہے کہ حملے کی وجہ مظلوموں کی داد رسی تھی نہ کہ املاک کے حصول اور اپنی خلافت کی توسیع پسندی۔
آخر میں ان "وجوہات" کا تذکرہ کرنا مناسب ہو گا جن کی وجہ سے ملحدین راجہ داہر سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور اس کے مقابل مسلمان ہیرووں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ وجہ یہ ہے کہ راجہ داہر بھی ملحدین کی "انقلابی فکر" کا پاسباں ہے کہ "ہر عورت عورت ہوتی ہے چاہے ماں ہو یا بہن"۔ رشتوں کا تقدس خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ "الحاد کی معراج" انہیں راجہ داہر کی شکل میں نظر آتی ہے جب اس نے اپنی بہن سے شادی کی۔۔۔! اس کے علاوہ چور ڈاکو راجہ داہر تھا نہ کہ مسلمان جنگ جو۔۔۔!
‎چچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چندر راجہ بنا۔چند سالوں میں وہ فوت ہوگیاتو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنااور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر ۔چچ کی ایک بیٹی تھی، دھرسیہ نے اس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اسے داہر کے پاس بھیج دیاکہ اس کی شادی کردی جائے۔داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا ۔جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے۔یہ جس کے پاس رہے گی اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی۔داہر نے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے وزیر باتدبیر سے مشورہ کیا، وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں، بات اچھی ہو یا بری لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔لوگوں نے تو راج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرادیا،بہن سے شادی تو معمولی بات ہے۔گو کہ وزیر کے مشورے پر عمل کرکے داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، مگر دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (حیدرآباد) پہنچا اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا۔اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی۔قزاقی ،لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والے داہر کے سایہ عافیت میں پناہ لیتے تھے۔�(تاریخ سندھ، صفحہ 45-46)





Image may contain: 1 person, text









No comments:

Post a Comment