Breaking News

خدا کے نشان


تحریر : محمّد سلیم
فرض کریں ایک بہت بڑے صحرا کے بیچوں بیچ دو انسان موجود ہیں ۔ ایک مومن ہے دوسرا ملحد ۔ ان دونوں کو صحرا میں کسی تیسرے انسان کے قدموں کے نشان ملتے ہیں ۔
 مومن کہتا ہے کہ ہم دونوں کے سوا بھی کوئی تیسرا انسان اس صحرا میں موجود ہے جس کا ثبوت یہ قدموں کے نشان ہیں ۔ مگر ملحد اس بات کا انکار کر دیتا ہے یہ کہہ کر کہ یہ کسی تیسرے انسان کے قدموں کے نشان نہیں ہیں ۔
 ملحد کا جب یہ دعویٰ ہے کہ کوئی تیسرا انسان موجود نہیں ہے تو اس دعوے کے لئے اس کو کچھ باتوں کی وضاحت کرنی پڑے گی ۔
١١ ۔ یا تو وہ جانتے بوجھتے دیکھتے اپنی آنکھیں بند کر کے کہہ دے کہ مجھے نشان نظر نہیں آرہے لہٰذا کوئی تیسرا انسان ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس کو ڈھٹائی کہتے ہیں ۔
٢٢ ۔ یا پھر وہ ان قدموں کے نشانوں کی کوئی ایسی سائنسی توجیہ پیش کر دے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ قدموں کے ہو بہو انسانی طرز کے نشان سائنس طور پر بھی بن سکتے ہیں ۔
٣٣ ۔ یا پھر وہ پورے صحرا کی خاک چھانے ۔ ایک ایک انچ ایک ایک چپے کی تلاشی لے اور واپس آکر مومن کے سامنے ثبوت رکھ دے کہ دیکھ لو میں نے پورا صحرا چھان مارا ۔ ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا انسان مجھے نہیں ملا ۔
 مومن کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے کچھ زیادہ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ۔ قدموں کے نشان جب تک موجود ہیں اس کا یقین پختہ ہے اس کا دعویٰ منطقی ہے ۔ مزید کسی ثبوت کی اسے حاجت ہی نہیں ۔ ملحد کا مسئلہ خراب ہے ۔ قدموں کے نشانوں کو وہ جھٹلا نہیں سکتا اور قدموں کے نشانوں کی کوئی دوسری وضاحت اس کے پاس موجود نہیں ۔ ڈھیٹ بن جائے تو اور بات ۔ ورنہ قدموں کے نشان کی جب تک کوئی دوسری وضاحت کرنے جوگا نہ ہو جائے اسے اس وقت تک یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اس صحرا میں ہم دونوں کے سوا کسی تیسرے انسان کی موجودگی کے ثبوت پائے جاتے ہیں ۔
 یہی معاملہ خدا کے ساتھ ہے ۔ کائنات کی ہر چیز کی تخلیق میں خدا کے نشان موجود ہیں جن کو جھٹلانا فی الوقت سائنس کے لئے ناممکن ہے ۔ جھٹلانے والا ڈھیٹ ہو تو لاعلاج ہے ورنہ سائنس منطق اور دلیل کے مطابق جب تک ان نشانوں کی کوئی دوسری وضاحت سامنے نہ آجائے اس وقت تک خدا کو تسلیم کرنا مذہبی تقاضا ہی نہیں بلکہ انسان کی مجبوری بھی ہے ۔
 خدا کو ثابت کرنے کے لئے خدا کو مادی حالت میں پیش کرنا ضروری بھی نہیں ہے اور ممکن بھی نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ ہم مخلوق ہیں اور وہ خدا ۔
 اس کی مثال کششِ ثقل سے لے لیجئے ۔ کیا سائنس کششِ ثقل کو مانتی ہے ؟ جواب ہے جی ہاں ۔ بالکل مانتی ہے ۔ تو کیا سائنسی کششِ ثقل کو مادی حالت میں پیش بھی کر سکتی ہے ؟ تو جواب ہے جی نہیں ۔ یہ ممکن نہیں ۔ سائنس صرف منطقی طور پر آپ کی عقل کو یہ بات باور کروا سکتی ہے کہ سیب اور ہر چیز چونکہ نیچے گرتی ہے لہٰذا یہ کششِ ثقل کی موجودگی کا منطقی ثبوت ہے ۔ 
یعنی سائنس کو کششِ ثقل کے وجود کا یقین محض اس کی خصوصیات کی بناء پر ہے ۔
 پھر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کششِ ثقل کو ڈھونڈا جا سکتا ہے ؟ سائنس کہتی ہے کہ کششِ ثقل زمین کے بیچوں بیچ ہے ۔ تو کیا خیال ہے آپ کا کہ اگر میں زمین کھودتا ہوا زمین کے بیچ میں پہنچ جاؤں تو کششِ ثقل مل جائے گی ؟ ایک ایک ذرہ زمین کا الگ الگ کر دیجئے ۔ کششِ ثقل نہیں ملے گی ۔ وہاں بھی نہیں ملے گی جہاں سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ یہیں ہے ۔یہی ہے مرکز کششِ ثقل کا ۔ تو پھر کیا کششِ ثقل کا انکار کر دیا جائے گا ؟ جی نہیں ۔ ماننا پھر بھی پڑے گا ۔ جب تک زمین کی کشش ختم نہیں ہو جاتی آپ کو کششِ ثقل کو اس کی صفات کی بنیاد پر ماننا پڑے گا ۔ چاہے وہ آپ کو ملے یا نہ ملے ۔
 اب فرض کریں میں کہوں کہ کششِ ثقل کو ثابت کرو تو یقیناً سائنسدان میرے سامنے چیزوں کے گرنے کی عقلی توجیہ ہی ثبوت کے طور پر پیش کریں گے ۔ پھر بھی اگر میں کمال ڈھثائی سے انکار کر ڈالوں کہ میں کششِ ثقل کو نہیں مانوں گا اس وقت تک جب تک وہ میرے سامنے نہ آجائے تو مجھ سے چیزوں کے گرنے کی متبادل توجیہ مانگی جائے گی ۔ جو مجھے دینی ہی پڑے گی ورنہ اقرار لازم ہے ۔
 یہی معاملہ خدا کا بھی ہے ۔



Image may contain: text











No comments:

Post a Comment