Breaking News

اسلام اور غلامی

11081074_1615439432026016_2792608510002965217_n





اس معاملے میں لوگ ھمیشہ آزادی اور غلامی کے درمیان تقابل کرتے ھیں اور یہیں سے وہ ٹھوکر کھاتے ھیں، تقابل موت اور غلامی کے درمیان ھے !
ایک شخص میدان جنگ میں مغلوب ھو جاتا ھے جہاں وہ بہت سے لوگوں کی جان لے چکا ھے ! مغلوب ھو جانے کے بعد وہ غالب کی مرضی کے تابع ھے ،غالب چاھے تو تلوار کے ایک وار سے اس کا سر اڑا دے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ، وہ اپنے ھر مرنے والے ساتھی کی موت کا ذمہ دار اس مغلوب شخص کو گردان سکتا ھے ۔!
اس خونی ماحول میں جہاں ھر طرف کٹے پھٹے لاشے بکھرے پڑے ھیں،، شریعت آگے بڑھتی ھے اور اس غالب کے نفس میں رکھے لالچ کے دیئے کو جلاتی ھے ،، اس بٹن کو دباتی ھے ! اسے مت مار ،، اسے قید کر لے اور اپنے نفعے کا سامان کر ! اس کو مار کر تمہیں کیا ملے گا،، اسے بچا لے اور اپنے کام میں لے آ ،، شریعت اس کے اندر لالچ کی جوت جگاتی ھے کہ وہ اس ماحول سے ایک دفعہ نکل آئے !
یہ ھے موت اور غلامی کا آپشن ،، مار دے یا غلام بنا لے ! آزادی یہاں کوئی آپشن نہیں ھے ! اسے یا مرنا ھے یا قید ھونا ھے ! یہاں جب آپ تقابل کریں گے تو آپ شریعت کو اس غلام کا حامی اور ساتھی پائیں گے جو اس نازک وقت میں مداخلت کر کے اس کی جان بچاتی ھے ،جب انسان سگی ماں کی بھی نہ مانے !
جب جنگ ختم ھوتی ھے وہ ماحول وہ خونی فضا ختم ھوتی ھے تو اب شریعت اسے آئستہ آئستہ غلام کو آزاد کرنے پر آمادہ کرتی ھے،، ٹھیک ھے تم نے اسے اپنے فائدے کے لئے قید کیا تھا،مگر فائدے بھی دو ھیں،، ایک عارضی اور فانی فائدہ ھے ، دوسرا دائمی اور باقی رھنے والا فائدہ ھے ! تو اسے آزاد کر کے آگے آخرت میں کیوں نہیں بھیج دیتا، کہ وھاں اسے پیش کر کے اپنی جان چھڑا لے، (شریعت نے بہت سے گناہوں کا کفارہ غلام آزاد کرنا رکھا اور اسے بڑے درجات کی چیز قرار دیا) یوں وہ بندہ بچ بھی جاتا ھے اور آزاد بھی ھو جاتا ھے !
اگر شریعت قید کرنا بیک قلم حرام قرار دے دیتی تو یقین جانیں میدان جنگ سے مغلوب قوم کا کوئی فرد زندہ نہ پلٹتا ! اور یوں زندگی کو کوئی دوسرا موقع نہ ملتا۔
غور کیا جائے تو اسلام کا (جنگی قیدیوں کے حوالے سے) غلامی کاآپشن نہایت پسندیدہ و عقلی تصور ہے۔ درحقیت اس کے ذریعے اسلام ان مارجنل لوگوں کو اسلامی معاشرے میں سمو دیتا (internalizeکردیتا) ہے، بجاۓ اس سے کہ وہ ہمیشہ marginal اور alien طبقے ہی رہیں۔ یہ اسی انٹرنلائزیشن کا نتیجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں باقاعدہ سلطنت غلامان قائم ہونے کی نوبت تک آگئی۔چونکہ اسلامی ریاست ایک جہادی (ever expanding) ریاست ہوتی ہے لہذا اس میں غلامی کا یہ آپشن ہمیشہ کیلیے کھلا رکہا گیا اور فقہا نے ایسا ہی سمجھا (کیونکہ وہ اسلامی ریاست کی اس نوعیت سے بخوبی واقف تھے)۔ پھر جن لوگوں نے اسلامی ریاست کو آج کی مغربی ریاستوں کے پیمانوں پر ‘ویلفئر نیشن سٹیٹ ‘ اور اسلامی معاشرت کو سول سوسائٹی کے تناظر میں دیکھا انہیں غلامی کے اس تصور سے عار محسوس ہوئ اور اپنی علمی و سیاسی تاریخ کو نظر انداز کرکے اس دروازے کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔
سوال یہ ہے کہ جن قوموں نے اسے برا سمجھ کر ترک کیا (انکے ہاں گزشتہ صدی تک افریقہ سے لوگ غلام بنا بنا کے اپنے ہاں کام کروانے کے لیے لائے جاتے رہے )انہوں نے اس طبقے کو سوائے گوانتانامو جیسی جیلوں کے اور کچھ دیا؟ آخر ایسی قوموں کی علمیت اور عمل سے متاثر ہونے کی وجہ ہی کیا ہے؟ آج جب دنیا اس بات کو مان رہی ہے کہ معاشرتی مسائل حل کرنے کا درست طریقہ انہیں internalize کرنا ہے (مثلا غربت کے خاتمے کیلے ضروری ہے کہ لوکل سطح پر کوآپریٹوز کے ذریعے ذرائع میں اضافہ کیا جاۓ تاکہ مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں نہ یہ کہ لوگوں کو رقم دے دی جاۓ)، ایسے میں ہم اسلام کے اس عظیم آپشن پر بات کرتے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تحریر : زاہد مغل , محمد حنیف

No comments:

Post a Comment