Breaking News

نسانی ارتقاء کی ایک نشانی اور انسانی ارتقاء میں ایک درمیانی کڑی ہیں؟

Writer: Israr Ahmed

کیا ڈینی سوونز ( Denisovans) انسانی ارتقاء کی ایک نشانی اور انسانی ارتقاء میں ایک درمیانی کڑی ہیں؟
سائبیریا میں دریافت ہونے والے ڈینی سوونز فوسل سے متلعق ارتقا کے حامیوں🐒 کے سائنسی مفروضے اور ان کا جواب
🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴🔴
2010ء میں سائنسدانوں نے سائبیریا کی ڈینی سوا غار میں چالیس ہزار سال قدیم ایک نوجوان لڑکی کی ہاتھ کی ہڈی کے کچھ ٹکڑے دریافت کیے جن کے متعلق ارتقائی ماہرین نے دعوی کیا کہ یہ قدیم نسل انسانی ارتقا کی ایک نشانی اور انسانی ارتقا کی ایک درمیانی کڑی ہے۔اس غار میں مزید کئ انسانی ہڈیاں اور انسانوں کے استعمال میں رہنے والے کئی اوزار ملے۔حقیقت یہ ہے کہ جس غار میں ڈینی سوونز کی ہڈیاں یعنی رکاز یا فوسل ملے ہیں اسی غار کی تیس سے پچاس ہزار سال پرانی تہوں یا Sediments میں ایک اور معدوم انسانی نسل یعنی نینڈر تھال اور جدید انسانی نسلوں کے فوسل ان کے ساتھ اکٹھے ملے ہیں جب کہ ڈی این اے میں موجود جینیاتی تبدیلیوں یا ڈی این اے میوٹیشن پہ مبنی تحقیقات کے مطابق یہ رکاز یا فوسل اسی ہزار سال پرانے ہیں۔ اس طرح ان فوسل کی حقیقی عمر کے بارے میں سائنسدانوں میں پچاس ہزار سال کے عرصے کے فرق کے ساتھ شدید اختلاف ہے اور یہی اختلاف اکثر فوسل یا رکاز میں موجود ہے اور کئی سائنسدانوں کے مطابق مالیکیولر کلاک یا جینیاتی تاریخ یا دوسری کوئی بھی تاریخ مکمل طور پہ درست نہیں۔ 2011ء میں سائنسدانوں نے اس ہڈی کے ٹکڑے سے حاصل ہونے والے جینیاتی مادے یا ڈی این اے کا جینیاتی سلسلہ یا ڈی این اے سیکونس دریافت کرنے کا اعلان کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی و حیوانی جینیاتی مواد مفید ارتقائی تبدیلیاں حاصل کرنے کی بجائے مزید توڑ پھوڑ اور زوال کا شکار ہے جس کو جدید سائنسی علم وراثت یا جینیٹکس میں جینیاتی زوال پذیری یا Genetic Entropy کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس طرح یہ ساری تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ڈینی سوونز ایک بالکل مختلف فرضی انسانی ارتقا میں ایک بالکل مختلف حیوانی قسم یا سیپی چیز نہیں بلکہ بذات خود خود ایک قدیم معدوم شدہ انسانی نسل( Sub-species) ہیں اور کچھ نہیں۔اگرچہ ماحول میں ڈی این اے توڑ پھوڑ یا ڈی این اے بریک ڈاؤن کی تحقیقات ظاہر کر چکی ہیں کہ ارتقائی ماہرین کی طرف سے ان قدیم انسانی ہڈیوں کی مفروضاتی عمر بڑھا چڑھا کر پیش کی گئ ہے لیکن پھر بھی
اگر ایک اور معدوم انسانی نسل نینڈر تھال( اس کے انسانی نسل ہونے پہ ہم پہلے ہی ایک تفصیلی مضمون لکھ چکے ہیں جو ہمارے بلاگ http://debunking-atheism.blogspot.com/search?updated-max=2017-11-04T09%3A34%3A00-07%3A00&max-results=15&m=1 پہ موجود ہے) اور ڈینی سوونز کے کئی ملین ڈی این اے سلسلوں یا DNA SEQUENCES کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ سلسلے 7•99 سے 100% تک جدید انسانوں جیسے ہیں۔لہذا کے مطابق نینڈر تھال اور ڈینی سوونز قدیم معدوم شدہ انسانی نسلیں ہیں اور کچھ نہیں۔اگر ان کا جینیاتی مواد۔ جدید انسان سے 7•99 فیصد بھی مشابہ قرار دیا جائے تو بھی یہ نسلیں حقیقی انسان ہی ہیں نہ کہ انسانی ارتقا کی کوئی نشانی یا دلیل۔جو 3•0% کا فرق اگر مان بھی لیا جائے تو اتنا ہے جتنا یہ فرق اج کی جدید انسانی نسلوں کے درمیان ہے۔ان کے مائیٹوکونڈریل ڈی این اے میں باہم اور باقی انسانوں کے مقابلے میں کئی فرق بھی ہیں اور یہ فرق تیز جینیاتی تنوع اور کچھ افراد یا نسلوں کے تیزی سے معدوم ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ فرق جدید افریقی انسانوں اور باقی لوگوں میں بھی باہم موجود ہے۔اب اس فرق کی بنیاد پہ کون کہ سکتا ہے کہ کورین یا کوئی دوسری نسل انسان نہیں کوئی ارتقائی سلسلہ ہیں۔جب جدید انسانی نسلوں کے درمیان جینیاتی مادے کے اتنے بالکل معمولی فرق کی بنیاد پہ مختلف انسانی نسلوں کے انسان ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا تو ڈینی سوونز اور نینڈر تھال کے انسان ہونے کا کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نینڈر تھال قدیم معدوم شدہ انسانی نسل سے تعلق رکھنے والےحقیقی انسان ہی تھے اور کچھ نہیں اور یہ آج موجود انسانوں کے آباؤ اجداد سے باہم جنسی ملاپ کر چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اج کے کچھ انسانوں میں 4۔5% نینڈر تھال ڈی این اے پایا جاتا ہے۔دوسری بات یہ کہ ڈینی سوونز ان نینڈر تھال سے صرف چند جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف ہیں اور یہ فرق اج بھی انسانی نسلوں میں باہم پایا جاتا ہے۔لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نینڈر تھال اور ڈینی سوونز مختلف حیوانی نسلیں اور انسانی ارتقا کی ایک نشانی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں جدید انسان جیسی ہزاروں سال پہلے فنا ہوجانے والی قدیم انسانی نسلیں ہیں جن کا آپس میں اور اج موجود انسانی نسلوں سے جینیاتی فرق صرف اتنا ہے جتنا جدید انسانی نسلوں کا آپس میں ہے۔لہذا کسی صورت بھی نینڈر تھال اور ڈینی سوونز جدید انسانی نسلوں سے مختلف نہیں اور نہ ہی یہ کسی انسانی ارتقا کی کوئی نشانی ہیں۔ہارورڈ میڈیکل سکول کے پاپولیشن جینیٹکس کے ماہر ڈیوڈ ریک( David Reich) نے ایک سائنسی رپورٹ مرتب کی۔ان سے جب اس بارے میں مُصاحبہ یعنی انٹرویو کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اج موجود انسانی نسلیں قدیم ڈینی سوونز سے بھی جنسی ملاپ کر چکی ہیں اور ان کے جینیاتی اثرات اج پاپوا نیوگنی کے لوگوں میں موجود ہیں۔لہذا اج جدید علم البشریات یا Anthropology یقین کے ساتھ کہ سکتی ہے کہ نینڈر تھال، ڈینی سوونز اور دیگر قدیم قرار دی جانے والی انسانی نسلیں درحقیقت جدید انسانی نسلوں باہم جنسی ملاپ رکھنے والی جدید انسانی نسلیں تھی اور ہم سب حقیقت میں ایک ہی نسل یعنی انسان ہیں۔جدید انسانوں اور قدیم انسانی نسلوں جیسا کہ نینڈر تھال، ڈینی سوونز اور دیگر قدیم انسانی نسلوں کے درمیان باہم ہزاروں سال جنسی ملاپ رہا اور نینڈر تھال، ڈینی سوونز اور دیگر قدیم قرار دی جانے والی سپی شیز درحقیقت قدیم انسانی نسلیں تھیں اور یہی ملفورڈ ولپراف کا تصور ہے۔ہنلے کے مطابق جدید افریقہ میں اج بھی انسانی نسلوں میں باہم وسیع جینیاتی تنوع موجود ہے اور اتنا تنوع کسی اور انسانی نسل میں موجود نہیں لیکن باہم موجود اس وسیع جینیاتی تنوع کے باوجود ان کے انسان ہونے سے کسی کو انکار نہیں۔نینڈر تھال اور ڈینی سوونز کا جینیاتی تنوع افریقہ سے کہیں زیادہ مختلف نہیں۔پھر کیونکر نینڈر تھال اور ڈینی سوونز کے انسان ہونے کا انکار کیا جائے اور موجود معمولی جینیاتی فرق لاکھوں سال پہ مبنی ہجرت،واپسی، دوبارہ ہجرت اور ملاپ کی وجہ سے ہیں اور کئ ماہرین کے مطابق نینڈر تھال اور باقی انسانوں میں باہم جنسی ملاپ یورپ نہیں بلکہ اج سے ایک لاکھ سے ساتھ ہزار سال قبل مشرق وسطی میں ہوا جس کے بعد نینڈر تھال یورپ کی طرف ہجرت کرگئے۔
اس ساری تفصیل کی روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ نینڈر تھال، ڈینی سوونز اور دوسرے نام نہاد قدیم انسان یا Archaics حقیقت میں انسانی سپی شیز کی ہی نسلیں تھیں اور ان کئی علاقوں میں موجود انسانوں نسلوں کے درمیان باہم ہزاروں سال تک وقتا فوقتاجنسی ملاپ رہا اور تمام انسانی نسلیں ایک خاص جینیاتی بہاؤ یا Gene flow کے تحت باہم منسلک ہیں۔لہذا انسانی ارتقا کوئی الگ درخت نہیں بلکہ سب انسانی نسلیں اس ایک ہی درخت کی مختلف شاخیں ہیں جو باہم منسلک ہیں اور ہم اوپر پیش کردہ ساری تفصیل کی صورت میں نہیں کہ سکتے کہ نینڈر تھال اور ڈینی سوونز حقیقی انسان نہیں بلکہ انسانی ارتقا کی ایک نشانی اور انسانی ارتقا کی ایک درمیانی کڑی ہیں۔

حوالہ جات:

https://www.livinganthropologically.com/biological-anthropology/denisovans-neandertals-human-races/
Rizzi, E. et al. 2012. Ancient DNA studies: new perspectives on old samples. Genetics Selection Evolution. 44 (21): 1-19.
Prüfer, K. et al. 2014. The complete genome sequence of a Neanderthal from the Altai Mountains. Nature. 505 (7481): 43-49.
Allentoft, M. E. et al. 2012. The half-life of DNA in bone: measuring decay kinetics in 158 dated fossils. Proceedings of the Royal Society B: Biological Sciences. 279 (1748): 4724- 4733. Sanford, J. C. 2008. Genetic Entropy and the Mystery of the Genome. Waterloo, NY: FMS Publications.
Reich, D. et al. 2010. Genetic history of an archaic hominin group from Denisova Cave in Siberia. Nature. 468 (7327): 1053-1060.
Meyer, M. et al. A High-Coverage Genome Sequence from an Archaic Denisovan Individual. Science. 1224344. Published online August 30, 2012.
Gibbons, A. 2012. A crystal-clear view of an extinct girl's genome. Science. 337: 1028.
Thomas, B. Neandertal Genome Confirms Creation Science Predictions. ICR News. Posted on icr.org May 28, 2010, accessed September 7, 2012.
Meet Your Ancient Relatives: The Denisovans. NPR. Posted on npr.org August 31, 2012.
Wood, T.C. 2012. Ancient mtDNA Implies a Nonconstant Molecular Clock in the Human Holobaramin. Journal of Creation Theology and Science Series B: Life Sciences. 2: 18-26.
https://www.livinganthropologically.com/anthropology-2017/homo-sapiens/
Wolpoff “How Neandertals inform human variation,” 2009
Carroll 2010, Hybrids May Thrive Where Parents Fear to Tread
Templeton, Genetics and Recent Human Evolution, 2007:1509

No comments:

Post a Comment