Breaking News

فوری قتل جائز ہے!!


 اسلام میں سزا کے اس مزاج کا تو خوب چرچا ہے کہ کوئی شخص اگر کسی کو زنا کرتے ہوئے قابل شہادت حالت میں دیکھ لے تب بھی اسے چار گواہ پیش کرنا ہوں گے ورنہ اسے ہی سزا ہوگی لیکن اس موقع پر یہ بنیادی سوال کیوں مسلسل نظرانداز ہورہا ہے کہ اگر وہ اس حالت میں دیکھ کر موقع پر ہی قتل کردے تو اسلام کا قانون قضاء اسے کیا کہے گا؟۔۔
 اگر وہ آدمی عادی مجرم نہیں ہے اور مقتول کے اور اسکے درمیان کوئی رنجش وعداوت بھی نہیں ہے تو کیا عدالت اس سے اس قتل کے جواز کیلئے بھی اس سے چار گواہ طلب کرے گی؟۔
 اب اسلام کا مزاج بھی ہر کوئی اپنے مزاج کی طرح جیسے چاہے طے کردے اس بیچارے کی طرف سے کون آکر پوچھے گا۔۔
امت پہ تری آن عجب وقت پڑا ہے
 اسلام میں ایسے معاملات جنہیں دیکھ کر فطری اشتعال آتا ہے ان میں قانون کا ضابطہ الگ ہے مفاجئہ کا ضابطہ الگ۔اگر اس معاملے میں قضاء وقانون کی طرف رجوع کیا جائے گا تو اسلام کا جواب الگ ہے اور اگر فوری رد عمل کا اظہار ہو جائے تو معاملہ الگ۔
 مثلا ایک شخص اپنی بیوی کو کسی مرد کے ساتھ روشن خیالی کی حالت میں دیکھ لے۔اب اسکے پاس دو آپشن ہیں۔
1۔ردعمل میں دونوں کو یا اس مرد کو قتل کردے۔
2۔یہ معاملہ قاضی کے پاس لے جائے۔
 پہلی صورت پر عمل کی صورت میں اس پر نہ قصاص ہے نہ دیت اور دوسری صورت میں اسے گواہوں کے ذریعے یہ معاملہ ثابت کرنا ہوگا پھر جو سزا بنے گی عدالت دے گی جو قتل سے کم بھی ہوسکتی ہے۔اب معاملہ عدالت میں لے جانے کے بعد اگر یہ خود کسی ردعمل کا اظہار کرے گا تو سزا پائے گا کیونکہ یہ لڑائی کے بعد والا مکا اور آئوٹ آف ڈیٹ غیرت ہے۔اور ثابت نہ کرسکا تو بھی سزا پائے گا۔یہ اسلام کا حتمی قانون ہے۔
 روشن خیالی تو بڑا معاملہ ہے گھر میں جھانکتے ہوئے آدمی کی اس لمحے جان اور آنکھ معاف ہے نہ بدلہ ہے نہ دیت۔
 اب اسی تناظر میں گستاخی کے معاملے کو لیجئے کہ وہ اشتعال دلانے میں ایک مومن کیلئے باقی ہر معاملے سے بڑھ کر ہے۔
 میں گستاخی کے مسئلے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی بجائے اسلامی قضاء کے ان دونوں پہلوئوں کی آپکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی متضاد فیصلوں سے مثال دیتا ہوں تو بات سمجھنا آسان ہوگا۔
11۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے منافق کو بنابرگستاخی قتل کیا۔انہیں نہ سزا دی گئی نہ گستاخی پر گواہ طلب کیئے گئے نہ یہ کہا گیا کہ معاملہ عدالت میں کیوں نہ لائے۔
22۔حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی اور اسکے رفقاء کو نبی کریم علیہ السلام اور صحابہ کی شان میں انتہائی نازیبا کلمات کہتے سنا۔آکر نبی کریم کے گوش گذار کئے۔اب معاملہ اسلامی اصول قضاء پر چلاگیا ۔ان سے گواہ طلب کئے گئے جو ظاہر ہے موجود نہ تھے تومدعاعلیہان سے قسم مانگی گئی انہوں نے قسم کھالی تو فیصلہ نہ صرف یہ کہ انکے حق میں ہوا بلکہ حضرت زید کو ہلکی سی ڈانٹ بھی پڑی۔۔
 یہ بات جس نے بھی کہی غلط کہی کہ حضرت عمر کو سزا وحی کے ذریعے انکی صداقت معلوم ہونے کی بناء پر نہ دی گئی اور یہ کہ حضور علیہ السلام ایسے قضایا کے فیصلے وحی کی بناء پر کرتے تھے۔اگریہ بات درست ہوتی تو حضرت عمر کے حق میں تو وحی معلوم نہیں اتری یا نہیں حضرت زید کی صداقت پرتو پوری سورت المنافقون اتری مگر فیصلہ تبدیل نہیں ہوا۔۔اسی قانون پر رہا۔
ثابت کیا ہوا؟۔۔
قضاء کا حکم الگ ہے مفاجئہ کا الگ۔۔
 خود آپ سیلف پروٹیکشن کے عالمی قانون کی مثال لے لیجئے یہ اسلامی قانون مفاجئہ کی ایک فرع ہے۔اب ایک آدمی ثابت کردیتا ہے کہ اس نے یہ خون سیلف ڈیفنس میں کیا ہے تو قانون اسے سزا نہیں دے سکتا اگرچہ وہ شخص سوفیصد جھوٹا کیوں نہ ہو۔۔اب کوئی عقلمند اٹھ کھڑا ہوکہ سیلف پروٹیکشن کا استثناءچونکہ غلط استعمال ہوتا ہے اسلئے اسے ختم کردیا جائے تو اسکا یہ مطالبہ درست ہوگا؟۔۔
اب خلاصہ کرتا ہوں۔
 قانون غلط استعمال ہوتا ہے۔لیکن اس غلط استعمال کو روکنا قانون کے بس میں ہے وہ جب چاہے اس رجحان پر بآسانی کافی حد تک قابو پا سکتا ہے اگرچہ مکمل نہیں۔۔
 ایک مسلمان اس قانون کو غلط استعمال کرتا ہے کسی پر غلط الزام لگاتا ہے تو اسکے لئے بہت لعنت کی بات ہے دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔۔۔
 گستاخی سن کر سزا جاری کردینے کو علی الاطلاق اس قانون کا غلط استعمال نہیں کہا سکتا۔ مفاجئہ میں سزا جاری کردینا اسکی گنجائش موجود ہے۔ اسلئے ایسے واقعات کو مثال بنا کر قانون پر تنقید غلط ہے۔۔
 باقی جو ایک نامعقول ساواویلا بعض بہت معقول حضرات کی طرف سے بھی ہورہا ہے کہ علماء کے اشتعال دلانے سے ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں تو کھلی بات ہے کہ
 بین المسالک منافرت کی بناء پر سینکڑوں ایسے کیس درج ہیں۔کتنے واقعات میں مولوی کے اشتعال دلانے پر ایسا ہوا کہ کسی نے مدعاعلیہ مولوی کو جا مارا ہو حالانکہ فرقوں کے علمبردار جیسی اشتعال انگیزی ایک دوسرے کے خلاف کرتے ہیں اتنی تو کوئی امریکہ کے خلاف نہیں کرتا۔ممتاز قادری جن علماء کے زیر اثر تھا اگر اشتعال انگیزی کو قبول کرتا تو سلمان تاثیر کا نہیں کسی دیوبندی بندہ:
 مولوی کا خون کرتا۔اگر آپ ان مولویوں کو جانتے ہیں اور سن چکے ہیں تو میری بات کی ضرور تصدیق کریں گے۔لہذااب تک جو ایک دو ایسے واقعات ہوئے ہیں مفاجئہ کی بنیاد پر ہی ہوئے کہ گستاخی ہوئی اور دیکھنے والوں نے ردعمل کا اظہار کردیا۔یہ بات آپ ہر مسلمان کو کس طرح سمجھا سکتے ہیں کہ وہ رسول علیہ السلام کی شان میں گستاخی سن کر یا اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھ کر یا گھر میں کسی کو جھانکتا پاکر کان لپیٹ کر تھانے یا عدالت میں چلا جائے اور قانون ہاتھ میں نہ لے۔کچھ لوگوں کو یہ کبھی سمجھ نہیں آسکتا اسلئے انکے لئے ردعمل کی گنجائش رکھی گئی ہے۔اور دور نبوت میں دونوں مثالیں موجود ہیں۔۔جسے اس بارے میں اسلام اور مسلمان کا مزاج جانچنے کو شوق ہو وہ اپنی وال پر ریفرنڈم کروا لے کہ کون کس طرح کے ردعمل کو اختیار کرتا ہے۔میرا خیال ہے سوائے دو تین بہت ہی روشن خیال حضرات کے باقی سب مفاجئہ کے استثناء سے ہی فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔۔پھر ان سے سوال کریں کہ قانون کی پاسداری کیا چیز ہوتی ہے؟ قانون کا ہاتھ میں لینا روا ہے یا ناروا؟۔سزا جاری کرنا عدالت کا کام ہے یامخصوص حالات میں خود بھی کی جا سکتی ہے؟ اور ایسے واقعات کی وجوہات کا عدالت میں ثابت کرنا کیا ہوتا ہے۔۔اور اسلام کا مزاج سزا کیا ہے؟
تحریر: مولانا طلحۃ السیف
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
؛؛؛؛؛؛؛؛
 نوٹ : صاحب تحریر سے ایک اختلاف اگر حالت زنا میں موقع پر کوئی قتل کردے تب عنداللہ وہ گناہگار نہ ہوگا..البتہ ظاہرا قضاء کے لحاظ سے قصاص لیا جائیگا..یہ فقہ حنفی کا قول ہے ..باقی صاحب تحریر نے جو قول لکھا ہے اس بابت پتا نہیں (عمروہ معاویہ)

No comments:

Post a Comment