ایک بھائی نے انبکس میں فیس بک پر ویڈیوز کی شکل میں شدید ترین گستاخی رسول ﷺ کرنےکے مجرم ملعون سردار طیب کا مختصر ویڈیو کلپ بھیجا جس میں وہ اپنی گستاخی پر شرمندگی ظاہر کر کے توبہ کر رہا ہے۔
کلپ دیکھتے ہی بےاختیار میرے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ کھیلنے لگی ۔۔ اس سے پہلے کہ ہمارے بھولے مسلمانوں کے دل میں اس خنزیر مطلق کی آہ و زاری سن کر کوئی نرم گوشہ پیدا ہواورعمداً گستاخی کرنے والے مرتد کی توبہ قبول کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے بحث و سٹیٹسز کا بازار گرم ہو، یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ FIA نے انٹرپول کے ذریعے سوشل میڈیا پر گستاخی کرنے والے بیرون ممالک رہائش پذیر جن 8 لوگوں کو پکڑنے کے لیے متعلقہ ممالک سے رابطہ کیا ہے،ان میں یہی ملعون سردار طیب سب سے پہلے نمبرپر ہے۔۔ ادارے اس کے کشمیر میں آبائی گھر تک پہنچ چکے ہیں اور اب اس خنزیر کی ملک واپسی کے شدت سے منتظر ہیں۔۔
سردار طیب !!!! تو نے جو جرم کیا ہے کم از کم اس دنیا میں تو انسانوں کے قانون میں اس کی کوئی معافی نہیں ہے۔۔ معافی ہمیشہ غلطی کی ہوتی ہے نہ کہ جرم کی ۔۔ اور جرم وہی ہوتا ہے جو عمداً کیا جائے ۔ اگر گستاخی رسول ﷺ جیسے قبیح ترین جرم کی معافی دی جانے لگی تو پھر سزا کس جرم پر ہوگی؟
ایک میجر صاحب بتا رہے تھے کہ انہیں ایک فوجی افسر کی بیوہ نے بتایا ، ان کے شوہر اور ایک دوسرے فوجی دوست نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے متعلق معلومات غیروں تک پہنچائی ۔۔ جب وہ پکڑے گئے تو بہت گڑگڑا کر معافیاں مانگنے لگے ۔۔۔۔ ISI کے اہلکاروں نے انہیں کہا کہ تمہارے پاس صرف دو آپشنز ہیں۔۔
اپنی بیویوں کے سامنے خود کو گولی مار لو ،وگرنہ پھر ہم تمہیں یہیں پر پھانسی دے کر جائیں گے۔۔۔ چنانچہ ان غداروں نے اپنے ہاتھوں سے خود کو غداری کی سزا دی ۔۔۔
بعض جرائم ایسے ہوتے ہیں جن کی سزا دینا ایک صحت مند معاشرے کی بہت بنیادی ضرورت ہوتا ہے ۔۔۔ اور تم جیسے کتوں کے وجود سے اس دنیا کو پاک کرنا امن دنیا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
از: زوہیب زیبی
♚
No comments:
Post a Comment