Zahid Sarfaraz
ہم میں سے اکثر احباب سائینس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیوں کے سائینس انکے نزدیک سچ تک پہنچنے کا واحد اور بہت ہی ویلڈ ذریعہ ھے جبکہ سائینس بہت ہی کمزور ریزننگ پے کھڑی ہے اور وہ ریزننگ ہے انڈیکشن یعنی استقراء اس عمل میں آپ کیا خطا کرتے ہیں اس کی وضاحت میں ایک مثال سے کرتا ہوں ایک شخص ایسے گاؤں میں پیدا ہوتا ہے جس میں کوے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں وہ بہت عرصہ وہاں رہتا ہے اور اپنے روز مرہ کے مشائدے سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کے تمام کوے کالے ہوتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد اس کا گزر ایک ایسے علاقے سے ہوتا ہے جہاں کوے سفید گردن والے ہوتے ہیں وہ اپنا نتیجہ ڈیولپ کرتا ھے اور بدل دیتا ہے کچھ کوے کالے ہوتے ہیں اور کچھ سفید گردن والے پھر کچھ عرصے بعد اس کا گزر ایک ایسے علاقے سے ہوتا ہے جہاں کوے سفید ہوتے ہیں ایک مرتبہ پھر وہ اپنا نتیجہ بدلتا ہے پھر سے ڈیولپ کرتا ھے کچھ کوے سفید ہوتے ہیں کچھ کالے اور کچھ سفید گردن والے ہوتے ہیں یہ وہ طریقہ کار ہے جس سے سائینس اگے بڑھتی ہے آپ نے دیکھا کے ہر دفعہ اس شخص کو یہ گمان ھوا کے وہ مکمل سچ پے کھڑا ہے مگر ہر دفعہ اسے اپنا نتیجہ بدلنا پڑا یہی وہ وجہ تھی کے ڈیوڈ ہیوم نے تمام سائینسی علمیت کو نہ صرف چلینج کیا تھا بلکے اس نے کہا تھا کے یہ تمام انٹائیر فاونڈیشن جن تجربات پے کھڑی ہے وہ آنے والے کل اگر غلط ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ ساری عمارت دھڑم سے نیچے آ گرے گی ۔ میں یہ نہیں کہتا کے سائینس پر بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہيے بلکہ میرا کہنا یہ ہے کے مکمل سچ تک پہنچنے کے لئے یہ کوئی ویلڈ یا ایتھینٹک وے آف ریزننگ نہیں ہے بلکہ ہر اسٹیج پر آپکو یہ گمان ہو گا کے آپ مکمل سچ پے کھڑے ہیں مگر آپ ادھورے ہوں گے سچ کی تلاش کے اور بھی راستے ہیں فقط سائینس ہی مشعل راہ نہیں ۔
No comments:
Post a Comment